احمد فراز نے شاید سندھ پولیس کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار جیسوں کے لئے ہی کہا تھا:-پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں
نوجوان نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کرنے والے ایس ایس پی ملیر نجانے روپوش ہوئے ہیں یا لاپتہ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس کے اتنے اہم باوردی افسر کے بارے میں ان کے آئی جی اے ڈی خواجہ بھی لاعلم ہیں یہ وہی آئی جی سندھ ہیں جن کو عہدے پر برقرار رکھنے کے لئے اعلیٰ عدلیہ نے منتخب صوبائی حکومت کے وزیر اعلیٰ کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔عدلیہ کے اس فیصلے کے بعد عام تاثر تھا کہ سندھ پولیس اپنی اس نو دریافت شدہ خود مختاری کے بعد کچھ بہتر کارکردگی دکھائے گی مگر لگتا ہے کہ عدالتی فتح کے باوجود سندھ کے آئی جی اے ڈی خواجہ آج اس قابل بھی نہیں کہ اپنے ایک ماتحت کو ایک عام شہری کے قتل کے جرم میں تلاش کر کے گرفتار کر سکیں۔ کون نہیں جانتا کہ پورے ملک کی طرح سندھ میں بھی عوام کی زندگی اور موت کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوتے۔ نقیب کا قاتل ایس ایس پی راؤ بھی اس ماورائے عدالت نظام کا حصہ رہا ہے جس میں سینکڑوں شہریوں کو بغیر الزام و ثبوت اور عدالتی عمل کے اغوا اور قتل کیا گیا۔ ایس ایس پی راؤ اسی نظام کا محض ایک کل پرزہ تھا اور نقیب محض ایک فرد آج وہی ماورائے عدالت نظام اس باوردی قاتل کو تحفظ دے رہا ہے۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہماری حکومتوں، عدالتوں، پولیس کے اعلیٰ افسران اور میڈیا کو اس بات کا علم نہیں تو وہ پاکستان میں نہیں احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ اس ماورائے عدالت نظام کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے اور اسکے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے اعلیٰ عدالتیں نقیب اللہ کے قتل جیسے انفرادی مقدمات کی بجائے لاپتہ افراد کے مقدمات میں ایک مفصل، ٹھوس اور سبق آموز فیصلہ تحریر کر دیتیں آج شاید نقیب اللہ قتل نہ ہوتا۔ لاپتہ افراد کے مقدمات میں بھی خفیہ اداروں پر لگائے گئے الزامات اور عالمی دباؤ سے بچنے کے لئے اعلیٰ عدلیہ نے جو کارروائی کی تھی وہ بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ عام شہریوں کے اغوا، ان کی لاپتگی اور انکے قتل کا عمل نہ صرف جاری رہا بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوا۔ سپریم کورٹ لاپتہ افراد کے مقدمات میں جامع انداز میں آئین کی تشریح اور ٹھوس اقدامات پر مبنی احکامات اور ان پر عملدرآمد کے لئے اپنا "نگران جج" مقرر کرنے کی بجائے انفرادی واقعات پر سوموٹو لے لیتی ہے مگر کچھ عرصے بعد ہوتا وہی ہے جو پہلے ہوتا آیا ہے یعنی کوئی کمیشن یا کچھ نہیں۔ سندھ پولیس کا ایس ایس پی راؤ اسی ماورائے عدالت نظام کی پیداوار اور اس کا ایک کل پرزہ ہے جس کو سزا دینا تو انتہائی ضروری ہے مگر پھر اسکی ڈوریں ہلانے والے کرداروں کو جب تک بے نقاب کر کے قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی اس وقت تک شہری اغوا اور قتل ہوتے رہیں گے۔ آخرایس ایس پی راؤ ایسی کونسی توپ ہے کہ اس کا آئی جی بھی اس کو آپ جناب سرکار کی زبان میں خود کو قانون کے حوالے کرنے کی بات کرتا ہے۔ راؤ صاحب کے پاس اے ڈی خواجہ، پیپلز پارٹی قیادت یا خفیہ ہاتھوں کے کون سے راز ہیں کہ وہ دندناتا ہوا ملک سے فرار ہونے کے لئے ایک ائیر پورٹ پر پہنچ جاتا ہے، یہاں اسے گرفتار کرنے کی بجائے عزت و احترام سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ راؤ صاحب کونسے "سیف ہاؤس" میں کسی کے مہمان ہیں کہ ہمارے دنیا کے بہترین خفیہ اداروں کو بھی انکا اتا پتہ نہیں۔ آخر ہمارے "اداروں" کو یہ خبریں پلانٹ کروانے کی کیوں ضرورت پڑتی ہے کہ راؤ انوار کے ملک سے فرار کے لئے فوجی ہوائی اڈے سے نجی پرواز کو اجازت نہ دیکر اسکے فرار کو ناکام بنادیا گیا اور پھر کیا وجہ ہے کہ راؤ انوار جیسے باوردی قاتلوں کو آصف زرداری جیسے بے وردی (unworthy) سیاستدانوں سے جوڑنے کے بعد چند "حوالدار اینکرز" اس معاملے پر اپنے ہاتھ جھاڑ لیتے ہیں یہ وہ نیم حکیم ڈاکٹر حضرات ہیں جو راؤ انوار اور اسکی ڈوریں ہلانے والوں سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے زینب قتل جیسے دلخراش واقعات پر من گھڑت کہانیاں ترتیب دیتے ہوئے بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ یہ وہ "ڈارک ویب" ہے جس کے بارے میں حکومت، عدلیہ، سیاستدان اور میڈیا سب جانتے ہیں مگر اپنے اپنے فائدے کی خاطر اس کے خلاف کوئی بات یا کاروائی نہیں کرتے۔ اس مجرمانہ خاموشی کے باعث وہ سب لوگ اس "ڈارک ویب" کا حصہ ہیں جو نہ صرف ماورائے عدالت اور ماورائے آئین شہریوں کے قتل اور انکے قاتلوں کو تحفط دینے میں ملوث ہیں بلکہ ایسے اقدامات پر خاموش رہتے ہیں۔ ہماری حکومت، معاشرے، میڈیا، حکمران، عدلیہ اور چند ادارے اسی "ڈارک ویب" کا حصہ ہیں یہ وہ "ڈارک ویب" ہے جس میں ہم لوگوں کو گھناؤنے اور انسانیت سوز اقدامات کے عوض لاکھوں ڈالر ملتے ہیں۔ وہی لاکھوں ڈالر جو جنرل مشرف جیسے فوجی آمروں کو پاکستان کے شہریوں کو بیچ کر ملے اور بعد میں بھی نامعلوم خدمات کے عوض سعودی شاہی خاندان سے کئی ملین ڈالر ملے۔ ایس ایس پی راؤ انوار جیسے باوردی قاتلوں کو بچانے کے لئے مذکورہ "ڈارک ویب" کے تمام اراکین متحرک ہو چکے ہیں مگر اس سے پہلے عوام کی امید اور آس کے مطابق ایسا سب کچھ کیا جائے گا جس سے تمام اداروں کا بھرم برقرار رہے۔ کچھ عرصے بعد ہماری قوم یہ المیہ بھی ویسے ہی بھول جائے گی جیسے ایبٹ آباد میں امریکی حملہ اور اسے سے پہلے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کراچی میں اڑھائی سو افراد کا آگ میں جلایا جانا اور سب سے بڑھ کر آرمی پبلک سکول میں ڈیڑھ سو بچوں کا قتلِ عام۔ ان بچوں کے گھروں کے باہر تو کسی سیاستدان کو کوئی پریس کانفرنس کرنے کی بھی جرات نہیں ہوتی۔ نقیب اللہ قتل کیس میں بھی عدالتیں لگیں گی، کمیشن بنیں گے مگر پھر لاپتہ افراد کی ایف آئی آروں کی طرح کوئی گواہ ہو گا نہ کوئی ثبوت۔ اس دوران حکومتیں بدل جائیں گی، ججز ریٹائر ہو جائیں گے اور کمان کی چھڑی نئے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ صرف چند سال کی ہی تو بات ہے۔ اتنے کم عرصے میں متعلقہ اداروں کے سربراہ ملک، آئین اور قانون کی سربلندی کی بجائے اپنے اپنے اداروں کا سر بلند کرنے پر مجبور نہ ہوں تو پھر اور کیا کریں تو جناب بطور قوم ہمیں صبر و تحمل سے کام لینا ہو گا۔ ہمارے ادارے نہ ہی خود جذباتی ہوں نہ اپنے ریمارکس اور بیانات سے قوم کو جذباتی بنائیں۔ ہمیں اپنے اندر کے "ڈارک ویب" کو ختم کرنا ہو گا۔