انگلستان کی جمہوریت کو سارے زمانہ میں جمہوریت کی ماں مانا جاتا ہے تاحال انگلستان کی جمہورست بے داغ رہی ہے، ذرا سی بے اصولی کا شک بھی گزرے تو حکومت وضاحت کرتی ہے۔ شک کا شائبہ بھی ہو تو فوراً مستعفی ہو جاتی ہے تاکہ جمہوریت کی اعلیٰ اقدار پر حرف نہ آنے پائے انگلستان کا طریقہ انتخاب راقم نے وہاں خود رہتے ہوئے دیکھا ہے۔
پارٹی اپنے امیدواروں کا انتخاب پارٹی کیلئے خدمات کی بناء پر کرتی ہے، کسی یاری، دوستی رشتہ داری یا پارٹی فنڈ دینے کی بناء پر نہیں ہوتا۔ پارٹی کے امیدوار کے گھر کے سامنے چھوٹا سا پارٹی کا جھنڈا لگا دیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو آگاہی ہو کہ پارٹی کا نامزد امیدوار یہ ہے۔ نہ وہ کسی کے گھر جاتا ہے اور نہ کوئی اس کے گھر آتا ہے۔ نہ کوئی انتخابی دفتر ہوتا ہے اور نہ وہاں چائے اور کھانے کی دعوتیں ہوتی ہیں۔ پولنگ کے دن ایک کمرہ مقرر کر دیا جاتا ہے ووٹروں کو مطلع کردیا جاتا ہے کہ فلاں حلقے کا پولنگ اسٹیشن فلاں جگہ مقرر ہو گیا ہے پولنگ اسٹیشن میں دو تین آدمی ڈیوٹی پر مقرر ہوتے ہیں۔ ووٹر اپنی آسانی کے مطابق کوئی صبح کوئی دوپہر کوئی شام اپنا ووٹ ڈال دیتا ہے پولنگ پر نہ کوئی پولیس ہوتی ہے نہ فوج ہوتی ہے نہ کوئی دنگا فساد ہوتا ہے۔
پولنگ وقت کے بعد سرکاری طور پر امیدواروں کے پول شدہ ووٹر کی گنتی ہوتی ہے جو سرکاری اعلان اور میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچائی جاتی ہے نہ کوئی جلسہ ہوتا ہے نہ جلوس نکلتا ہے۔
اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں سیاسی پارٹیوں میں اپنا امیدوار مقرر کرنے کیلئے ذاتی تعلقات، رشتہ داری، ذات برادری اور پارٹی کیلئے زیادہ سے زیادہ چندہ دینے کو معیار بنایا جاتا ہے الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں۔ آتش بازی کا مظاہرہ ہوتا ہے، زندہ باد و مردہ باد کے نعرے لگتے ہیں اور جلوس نکالے جاتے ہیں۔
عوام کے ووٹ سے چنے جانے کے بعد کامیاب امیدوار پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ اپنی گاڑی کی پلیٹ پر ایم پی اے یا ایم این اے لکھوا لیتے ہیں اس طرح وہ اپنی ذات کو عوام سے الگ کر لیتے ہیں، انگلستان کا اسمبلی ہال کئی سالوں پرانا ہے اس میں حکومت اور اپوزیشن کے ممبران آنے سامنے لگائے ہوئے سبز رنگ کی ریکسین والے بنچوں پر بیٹھتے ہیں۔
میٹنگ کے دوران قائد حزب اختلاف حکومت پر ثبوت کے ساتھ الزام لگاتا ہے اسی وقت سامنے بیٹھا ہوا وزیراعظم اس کا جواب دیتا ہے یا تحقیقات کیلئے وقت مقرر کر دیتا ہے۔ کسی الزام کی تحقیقات کے دوران متعلقہ وزیر اپنے عہدے سے خود الگ ہو جاتا ہے تاکہ تحقیقات متاثر نہ ہو۔ گزشتہ وزیراعظم کے والد کا نام پاناما کیس میں شامل تھا۔ وزیراعظم نے اپنے مرحوم والد کے کیس کی وضاحت کی اور وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا حالانکہ الزام اس کی ذات پر نہیں تھا بلکہ اس کے مرحوم والد پر تھا۔ استعفیٰ دینے کے بعد انہوں نے اپنی سرکاری رہائش گاہ ٹین ڈائوننگ سٹریٹ خالی کردی اپنا سامان خود اٹھا کر اپنی گاڑی میں رکھنے کی تصویر ساری دنیا نے دیکھی۔ قدرت کی ستم ظریفی کہیے یا اُن کے کردار کی عظمت دنیا پر واضح کرنا تھی۔ اُن کا اپنا ذاتی مکان کرائے پر چڑھا ہوا تھا۔ کرایہ دار نے مکان خالی کرنے سے انکار کر دیا اس لئے کہ ابھی کرایہ نامہ کے مطابق مدت پوری نہیں ہوئی تھی۔ انگلستان کے سابق وزیراعظم نے اپنی رہائش کے لئے کرائے کا ایک گھر تلاش کر لیا جن کے لیڈر ایسے ہوں اس قوم کے افراد کے اخلاق کی عظمت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ہمارے ممبران کی اسمبلی کی عمارت مغل بادشاہوں کے محلوں کی طرح پرشکوہ۔ پچھلی صوبائی حکومت کے دور سے تاحال زیر تعمیر ہے موجودہ اسمبلیوں میں ممبران کے بیٹھنے کی الگ الگ بڑی بڑی صوفہ نما آرام دہ سیٹیں ہیں جو کہ آگے پیچھے اور اُوپر نیچے گھومتی ہیں۔ ایئر کنڈیشننگ سسٹم ایسا کہ گرمی کے موسم میں ممبران سردی سے ٹھٹھرنے لگتے ہیں تو پلانٹ بند کروا دیا جاتا ہے۔ ممبران کی رہائش کیلئے فائیو سٹار ہوٹلوں سے زیادہ بہتر سہولیات میسر ہیں جس عوام کی نمائندگی یہ کرتے ہیں ان میں 65فیصد لوگ خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار دیتے ہیں ممبران اس پر ہی اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ آئے دن اپنی تنخواہ اور مراعات کو خود ہی قانون پاس کرکے دو چند بڑھا لیتے ہیں۔ قائداعظم کا ذاتی گھر بمبئی کے پوش علاقہ میں اڑھائی ایکڑ پر محیط تھا۔ انگلستان کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ حال میں بھارتی حکومت نے اس کی قیمت400ملین ڈالر لگائی ہے جب آپ نے پاکستان کا عنان حکومت سنبھالا تو عوام کے ایک ایک پیسے کا خیال رکھا۔ قائداعظم نے اپنی حکومت کے دوران وزارتی میٹنگ میں ممبران کیلئے صرف سادہ پانی مہیا کرنے کی ہدایت کی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا جس وزیر نے چائے یا کافی پینی ہے وہ گھر سے پی کر آئے یا واپس گھر جا کر پیئے۔ عوام کا پیسہ وزیروں کیلئے نہیں ہے۔
کتنی یادیں غم امروز سے جاگ اٹھتی ہیں
گرتے پتوں سے بہاروں کا خیال آتا ہے