پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 10 روپے فی لٹر کمی کا امکان
خدا کرے یہ کمی واقعی 10 روپے فی لٹر ہو۔ موجودہ حکومت کے دور میں اعلان 6 روپے کا ہو تو ایک روپے کمی کی جاتی ہے۔ اب کہیں 10 روپے کمی کے اعلان کے بعد 2 روپے فی لٹر کمی نہ کی جائے۔ عوام ابھی تک منی بجٹ کے حوالے سے ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے پر حکومت کی رحم دلی پر شاداں و فرحاں ہیں۔ اب یہ خبر ان کی خوشیوں کو دوبالا کر رہی ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ اعلان کے مطابق حقیقی کمی کرکے عوام کے دل موہ `لے۔ پٹرولیم مصنوعات میں کمی کا لامحالہ اثر باقی اشیاء پر بھی پڑتا ہے تو لگے ہاتھوں حکومت ان تمام اشیاء کی قیمتوں کو بھی نیچے لانے کے اقدامات کرے جو پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ ہوتے ہی آسمان پر جا پہنچتی ہیں۔ اب ایسے اقدامات کے بعد اپوزیشن کے پاس کیا بچے گا کہ وہ اس ایشو پر احتجاجی سیاست چمکائے۔ منی بجٹ میں ان کی امید بندھی تھی کہ ہلہ گلہ کرنے کا کوئی نہ کوئی موقع ہاتھ آئے گا مگر افسوس ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا۔ اب اگر حکومت نے مہنگائی پر کنٹرول پانے کے چند اور اقدامات کر لئے تو کم از روٹی‘ کپڑا اور مکان کے ایشو پر سیاست کرنے والوں کے منہ بھی بند ہو جائیںگے۔ رہی بات ووٹ کی عزت اور حرمت کی تو ان کی لاش پر سیاست کرنے والوں کو ابھی مزید ساڑھے چار سال انتظار کرنا پڑے گا۔ تب تک ان کا سیاپاکوئی نہیں سنے گا۔ اس طرح سیاسی میدان میں رونق میلہ ہی نہیں رہے گا تو عوام کو مزید کراری خبریں سننے کو کہاں سے ملیں گی۔
٭…٭…٭…٭
جرمن سفیر کا اسلام آباد شیلٹر ہوم کا دورہ۔ کھانا بھی کھایا
بڑی بات ہے جرمن سفیر کی، جو کام ہمارے عوامی خدمت گاروں کے کرنے تھے۔ وہ یہ کرتے پھر رہے ہیں۔ ویسے بھی یہ جرمن سفیر حقیقت میں پاکستان دوست شخصیت ہیں۔ کبھی کراچی میں کسی سڑک پر حجامت کراتے ہیں تو کبھی پشاور میں ریڑھی سے پھل خریدتے ہیں۔ کبھی اسلام آباد میں کچرے کے ڈھیر دیکھ کر افسردہ ہو جاتے ہیں۔ اب گزشتہ روز انہوں نے اسلام آباد میں شیلٹر ہوم (پناہ گاہ) کا دورہ کیا وہاں جا کرٹھہرے افراد سے ملے ان کے مسائل پوچھے اور سب سے بڑھ کر وہاں ان مسافروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھایا۔ ان کے انسان دوست ہونے کی بڑی دلیل ہے۔ ہماری اشرافیہ تو برتن کو ہاتھ لگانے پر کم عمر ملازمہ تک کو قتل کر دیتی ہے۔ نمک تیز ہونے پر یا چینی کم ہونے پر گھریلو ملازمین کے ساتھ بدترین تشدد توعام ہے۔ اکثر اوقات ان بے چاروں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ نودولتیا طبقہ ہے جو پانی بھی منرل مانگتا ہے۔ اس کے برعکس جرمن سفیر نے ان مسافروں کے ساتھ کھانا کھا کر ثابت کیا کہ وہ یہ کھانا کھا کر بھی زندہ ہیں۔ انہیں ہماری اشرافیہ کی طرح کوئی برانڈ کا کھانا کھانے کا دورہ نہیں پڑا۔ متلی نہیں ہوئی۔ ورنہ اگر کوئی اعلیٰ پاکستانی صاحب ہوتا تو وہ مر جاتا مگر مسافروں کے ساتھ بیٹھ کر کڑی انڈہ آلو اور تندوری روٹی نہ کھاتا کہ نجانے کیا ہو جائے گا۔ اب یہ جرمن سفیر دنیا بھر میں پاکستان کا سافٹ امیج بھی بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں کہ پاکستان میں کسی غیر ملکی کو کوئی خطرہ نہیں وہ جہاں چاہے آ جا سکتا ہے۔ اس پر ہمیں کم از کم ان کا شکریہ ہی ادا کرنا چاہئے۔
٭…٭…٭…٭
نئی فریٹ ٹرین چلنے کے کچھ دیر پٹڑی سے اتر گئی
اس بار لگتا ہے شیخ جی کے قدم ریلوے کے لئے خاصے بھاری ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ جس نئی ٹرین کا افتتاح کرتے ہیں۔ نجانے کیوں وہ اس روز یا چند روز بعد کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوجاتی ہے۔ ریکارڈ اٹھا کر چیک کر لیں شیخ رشید نے وزیر بننے کے بعد جس بھی نئی ٹرین کا افتتاح کیا وہ شومئی قسمت یا حاسدوں کی بدنظری کے باعث حادثے کا شکار ہوئی۔ اب گزشتہ روز انہوں نے کراچی میں ایک نئی مال گاڑی کا افتتاح کیا وہ بھی روایت پرست سی نکلی۔ افتتاح کے تھوڑی دیر اس کے بوسیدہ ڈبوں نے از خود جلد ہی پٹڑی سے اترنے میں عافیت سمجھی کہ بعد میں کسی ویران جگہ پر اترنا پڑا تو بڑی دقت ہو گی، ان کابھی کچھ نہیں بچے گا۔ اگر شیخ جی کو علم نہیں تو ہم ہی حضور کو نیک و بد سمجھائے دیتے ہیں کہ جناب اطلاعات کے مطابق اس وقت ریلوے کو 200 سے زائد کوچز کی کمی کا سامنا ہے۔ سینکڑوں مال گاڑی کے ڈبے ہر بڑے سٹیشن پر بے یارومددگار کھڑے کھڑے سکریپ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ لوگ ان کا لوہا چوری کر کے کھا چکے ہیں، چھوٹے سٹیشنوں پر چلنے والی پسنجر گاڑیوں کے ڈبوںمیں نہ کھڑکیوں کے شیشے ہیں نہ واش روم سلامت اندر سے یہ ڈبے گل سڑ چکے ہیں، سیٹیں ٹوٹی اور پھوٹی ہوئی ہیں۔ اس صورت حال میں بھی اگر یہ سو فیصد رسک پہ چل رہے ہیں تو یہ ریلوے کی کرامت ہے، اس میں کسی وزیر کا کوئی کارنامہ نہیں۔ صرف پشاور تا براہ راست لاہور کراچی ریل گاڑیوں کی صحت بہتر بنانا کوئی قابل ذکر کام نہیں۔ اصل کام چھوٹے سٹیشنوں کے مسافروں کو سہولتیں دینا ہے تاکہ وہ پھرسے ’’پراں ہو جا سونئیے ساڈی ریل گڈی آئی‘‘کہتے ہوئے ٹرینوں پر ٹوٹ پڑیں اور ریلوے کی آمدنی بڑھے۔ اس طرح مال گاڑیوں کو بھی کھٹارا نہیں اچھی حالت والے ڈبے لگا کر چلائیں، تاکہ وہ بار بار پٹڑی سے الٹنے اور اترنے کی کوششوں سے محفوظ رہ سکیں۔
٭…٭…٭…٭
فلسطین کا امریکہ سے مزید امداد نہ لینے کا فیصلہ
فلسطینی وزیراعظم نے امریکی وزیر خارجہ کو خط لکھ کر مزید امداد نہ لینے کا پیغام دیا ہے۔ جواب میں امریکی وزیر خارجہ کیا لکھتے ہیں اب اس کا انتظار ہے۔ ایک ہم ہیں کہ امریکہ کے ہر ناروا سلوک کے باوجود ہم کشکول اٹھائے اس کی نظر کرم کے منتظر نظر رہتے ہیں کہ کب اس کی طرف سے چند ڈالر ہمارے کاسہ گدائی میں رنگ رلیاں مناتے نظر آئیں اور ہم ’’تھینک یو امریکہ‘‘ کا راگ الاپتے شکریہ شکریہ کی دھن پر رقص کریں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ فلسطینیوں میں ہم سے زیادہ غیرت قومی ہے یا وہ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکی اسرائیل دوست پالیسیوں کیخلاف احتجاجاً مزید امداد لینے سے انکاری ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ میں ایک قانون منظور ہوا ہے جسکے تحت کوئی بھی امریکی شہری کسی بھی ایسے ادارے کیخلاف مقدمہ کرکے اسے عدالت میں لاکھڑا کر سکتا ہے جو امریکہ سے امداد لیتا ہے۔ اب اسکے بعد فلسطینی اتھارٹی کو فکر لگ گئی ہے۔ انہوں نے کسی بھی قسم کی مالی و قانونی تعاقب اور عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہونے سے بچنے کیلئے یہ فیصلہ کیا ہے جو بہرحال احسن ہے کم از کم اس سے کسی قوم کے زندہ ہونے کا قوی حمیت کا تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ ابھی اس میں کچھ دم خم ہے۔ وہاں کی اتھارٹی عوام اور قانون سے خوفزدہ ہے کہ کہیں وہ انکی زد میں نہ آ جائیں بعد میں نہ بھینس رہے گی نہ بین بجانے والا نظر آئے گا۔ شکر ہے ہم لوگ اس قسم کے خوف سے آزاد ہیں اور ہمیں کسی قانون اور عوامی ردعمل سے قطعاً ڈر نہیں لگتا اس لئے ہم ہمہ وقت امریکی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔خواہ بعد ازاں وہ ہماری لے دے کرتا رہے ۔