نواز شریف کی سزا معطلی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے تمام میڈیکل رپورٹس طلب کر لیں

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تمام میڈیکل رپورٹس طلب کر لیں۔

نواز شریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔  سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل  ڈویژن بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ درخواست پہلی سزا معطلی درخواست میں ایڈیشن ہے اور اس میں طبی بنیادوں پر سزا معطلی مانگی گئی ہے، نواز شریف کی فیملی کو ان کی صحت سے متعلق تشویش ہے۔

خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ پیر کو سزا معطلی درخواست سماعت کے لیے مقرر کرلیں جب کہ جو میڈیکل رپورٹس آچکی ہیں وہ عدالت منگوالے تاہم ہمیں جو رپورٹس ملی ہیں وہ نامکمل ہیں۔

عدالت نے تجویز دی کہ تیسرے بورڈ کی بھی رپورٹ آجائے پھر اس معاملے کو دیکھ لیتے ہیں۔ کیا کوئی علاج رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے ؟

خواجہ حارث نے دونوں میڈیکل بورڈز کی رپورٹس عدالت کو پڑھ کر سنائیں جس کے مطابق نواز شریف کو گردے میں تیسرے درجے کی بیماری ہے جب کہ میڈیکل بورڈ نے گردے اور دل کے عارضے کے باعث نواز شریف کو اسپتال منتقل کرنے کی تجویز دی ہے۔

خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹس جاری کرے اور اسپیشل بورڈ کی رپورٹ منگوا کر دیکھ لے۔

عدالت  نے نواز شریف کے نئے میڈیکل بورڈ کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹس سمیت تمام میڈیکل رپورٹس طلب کر لیں جب کہ فریقین کو بھی نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت چھ فروری تک ملتوی کر دی۔نواز شریف کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ نواز شریف عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور ان کی تین ہارٹ سرجریز ہو چکی ہیں، ہائی کورٹ سے اپیل پر فیصلہ آنے تک سزا معطل کر کے اُنہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ میڈیکل بورڈ کے مطابق نواز شریف کو خصوصی علاج کی ضرورت ہے اور میڈیکل بورڈ نے اُنہیں اسپتال منتقل کرنے کی تجویز دی ہے۔

نواز شریف نے دل کے عارضہ کو بنیاد بناتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا معطلی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں نوازشریف کو قید کے علاوہ  تقریباََ ایک ارب 50 کروڑ روپے کا جرمانہ اور جائیداد ضبطگی کا فیصلہ سنایا تھا جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔عدالت نے تفصیلی فیصلے میں حکم دیا تھا کہ ہل میٹل کی آمدن سے بننے والے تمام اثاثے اور جائیداد وفاقی حکومت قرق کرے۔

سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا تھا ۔جس کی روشنی میں نیب نے ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

عدالت نے سابق وزیراعظم کو فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا جب کہ العزیزیہ اور ایون فیلڈ (لندن فلیٹ) ریفرنسز میں قید با مشقت اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

دوسری طرف قومی احتساب بیورو (نیب) نے بھی احتساب عدالت کے فلیگ شپ ریفرنس کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے اورالعزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کی سزا بڑھانے کی استدعا کررکھی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...