26 جنوری بھارت کا یوم جمہوریہ جس میں یہ بات اجاگر کی جاتی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ریاست ہے۔ اپنے ملک بھارت میں آنے والے ہر مہمان کا اس جملے سے استقبال کیا جاتا ہے کہ ہم سب سے بڑے جمہوری ملک میں آپ کو خو ش آمدید کہتے ہیں۔ بھارت رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ 26جنوری کو بھارتی آئین نافذ ہوا تھا اس لئے ہر سال مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ لیکن وہاں کے رہنے والے مسلمان، سکھ ، عیسائی، دلت اور دیگر اقلیتوں سے سلوک غیر جمہوری، غیر انسانی اور ظالمانہ ہے۔ جس ملک میں 30کروڑ مسلمان بستے ہوں ان کے خلاف شہریت بل منظور کیا جاتا ہے۔ جموں کشمیر کے عوام جن کو آئے دن ظالمانہ قوانین کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
72سال سے بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ اس بار بھی سرینگر اور وادی کے دیگر علاقوں میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے۔ داخلی اور خارجی راستوں پر چیک پوسٹیں قائم کی گئیں۔ کرکٹ سٹیڈیم ، مونا دار جہاں یوم جمہوریہ کی تقریبات ہنا تھیں‘ کو سیل کر دیا گیا۔ بینکر قائم کیے گئے۔ فضائی نگرانی کے لئے ڈرون استعمال کیے گئے۔
آل پارٹی حریت کانفرنس کے رہنمائوں میر واعظ اور سید علی گیلانی سمیت سب نے 26جنوری کو یوم سیاہ منانے کی اپیل کی تھی۔ بھارت من مانی کرتے ہوئے تمام جمہوری اور انسانی قدروں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ 05 اگست 2019ء کے بعد بھیانک سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس موقع پر آزاد کشمیر پاکستان سمیت ہر جگہ کشمیریوں نے یوم سیاہ منایا۔ وزیر اعظم عمران خان نے تمام ملکی مسائل اور مشکلات کے باوجود کشمیر ایشو پر کبھی خاموشی اختیار نہیں کی۔ ڈیووس کانفرنس کے موقع پر بھی امریکی صدر سمیت تمام بین الاقوامی رہنمائوں سے مسئلہ کشمیر پر کھل کر بات کی ہے جس کی بڑی اہمیت ہے اور بھارتی رویے اور کشمیریوں کی مشکلات سے آگاہ کیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی انتہاء پسند ہندو تنظیم RSS سمیت BJP کے ایجنڈے کو پروان چڑھانے کیلئے مذاکرات کی میز پر آنے سے گریزاں ہیں۔ اسلام دشمنی کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ UNO 6 ماہ کے دوران دوسری بار اپنے غیر معمولی اجلاسوں میں مسئلہ کشمیر کو زیر بحث لایا ہے۔ یہ سب کشمیریوں کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ عمران خان حکومت پاکستان اور اداروں کی بہتر سفارتکاری سے ہی ممکن ہوا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے ہمسایہ اور دوست چین کا کردار بھی مثالی رہا ہے۔ 5 ماہ میں جاری لاک ڈائون نے کشمیریوں کی زندگی کو اجیرن کر دیا ہے۔ کشمیر کے سٹیٹس کی یکطرفہ تبدیلی سے علاقائی امن اور استحکام کو شدید نقصان ہو سکتا ہے۔ امریکن تھینک ٹینک نے کہا ہے کہ بھارتی اقدامات سے نہ صرف پاک بھارت جنوبی ایشیاء کو بھی خطرات سے دوچار کیا ہے اور یہ نہایت غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے۔
بہرحال UNO اور بڑی طاقتوں کو زبانی جمع خرچ کرنے کی بجائے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ خاموش تماشائی بن کر نہیں رہنا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر کی سنگینی کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے PTI آزاد کشمیر کے صدر اور سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سے ایک ہفتے میں 2 بار ملاقات کی ہے۔ مسئلہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیاہے۔ اور کشمیریوں کی سیاسی ، اخلاقی اور ہر قسم کی حمایت جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔
PTI کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جو کہ میر پور سے ضمنی الیکشن کی شاندار کامیابی کے بعد بہت متحرک ہو چکے ہیں۔ آزاد کشمیر بھر سے حکمران جماعت مسلم لیگ سمیت دیگر جماعتوں کے مقبول رہنمائوں کی PTI میں شمولیت یقینی بنا رہے ہیں۔ مہاجرین مقیم پاکستان لاہور ، کراچی ، سندھ سمیت رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں PTI لاہور کے نو منتخب صدر اور ممبر کشمیر اسمبلی غلام محی الدین دیوان اور گوجرانوالہ سے PTI کے مرکزی رہنماء چوہدری مقبول اور دیگر مہاجر رہنمائوں سے ان کی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار مسلم لیگ کے مرکزی سینئر نائب صدر سابق وزیر اعظم اور سالار جمہوریت سردار سکندر حیات کی وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کو بھی بڑی اہمیت دے رہے ہیں اور اس کے نتائج جلد سامنے آنے کی خبریں دے رہے ہیں۔
ہم نے بھی اپنی تحریروں میں پہلے ہی کہا تھا کہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی کامیابی کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کو آفٹر شاکس آتے رہیں گے اس لئے راجہ فاروق حیدر خان نے اپنے بچائو کے لئے آزاد کشمیر اسمبلی سٹیٹس کی تبدیلی اور اپنے آخری وزیر اعظم ہونے کی نوید بھی دی۔ حالانکہ اس بارے میں ان کیمرہ اسمبلی اجلاس میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور سردار عتیق احمد خان اور دیگر رہنمائوں کے سوالات کے باوجود کوئی واضح جواب نہ دے سکے۔ اسمبلی فلور پر بھی ان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسمبلی نے قرار داد پاس کی جس میں موجودہ سٹیٹس کو ہی بحال رکھنے کا عزم کیا گیا۔ بہرحال کشمیری عوام نے بھی راجہ فاروق حیدر خان کے اس مئوقف کو تسلیم نہیں کیا۔
بھارت کا یوم جمہوریہ ‘ کشمیریوں کا یوم سیاہ
Jan 28, 2020