سردار عثمان بزدار کووزیراعظم کی تھپکی

Jan 28, 2020

اداریہ

وزیراعظم عمران خان نے لاہور میں تحریک انصاف کے پنجاب سے منتخب ارکان قومی اسمبلی، ارکان پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران واضح کر دیا کہ عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیراعلیٰ رہیں گے ۔ اگر عثمان بزدار کو ہٹایا گیا تو اگلا وزیر اعلیٰ 20 دن بھی نہیں چل سکے گا۔
وزیر اعظم عمران خان کے سردار عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب کے ’’جانے‘‘ کی ساری افواہیں دم توڑ گئی ہیں جبکہ خیبر پختونحوا میں 3 مضبوط وزراء کو برطرف کرکے بھی ’’اچھلنے کودنے‘‘ والوںکو ’’محتاط‘‘ رہنے کا پیغام دیا گیا ہے۔ جس کے بعد پارلیمانی پارٹی اجلاس میں بڑھ چڑھ کر بولنے والوں اور کور کمیٹی میں اختلاف رائے کا بھرپور اظہار کرنیوالوں کو بھی ’’کان ہو گئے‘‘ ہیں تاہم اختلاف رائے کا سلیقہ ضرور ہونا چاہئے اور ’’گھر کی بات گھر کے اندر رکھنے‘‘ کیلئے متعلقہ فورم پر بات کرنا نہ صرف قرین انصاف ہے بلکہ لائق تحسین و قابل ستائش بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اداروں کی مضبوطی ہی جمہوری حکومتوں کی مضبوطی اورملکی استحکام کی بنیاد ہوتی ہے اور اس سلسلے میں کبھی کبھی ’’مشکل‘‘ اور ’’ناپسندیدہ‘‘ فیصلے بھی کرنا پڑتے ہیں اور پارٹی ڈسپلن اورمضبوط پارلیمانی نظام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جمہوریت کی ٹرین پٹڑی پر رواں دواں رہے۔ ایسے فیصلوں سے کھرے کھوٹے کا فرق بھی واضح ہو جاتا ہے اور دور بیٹھ کر ’’ڈوریاں ہلانے‘‘ والوں کو بھی حدود میں رہنے کا پیغام مل جاتا ہے۔ اس تازہ ترین ’’کارروائی‘‘ کے بعد پنجاب ، خیبر پختونخوا، بلوچستان میں ’’سیاسی سرگرمیاں‘‘ معمول پر آ گئی ہیں اور ’’تبدیلی‘‘ کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں بھی کھل گئی ہونگی۔ ان اقدامات سے وزیر اعظم کے موقف ’’جو کام نہیں کریگا، گھر جائیگا‘‘ کو بھی مزید تقویت ملی ہے لیکن اپوزیشن کو تعمیری کردار ادا کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے ۔ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ملکی سلامتی، قومی ترقی و خوشحالی اور جمہوری نظام کے استحکام کیلئے وہ جو کچھ کر سکتی ہے۔ عدم اعتماد سمیت ہر چارہ جوئی اس کا حق ہے جو آئین و قانون دیتا ہے کیونکہ مضبوط اپوزیشن ہی کامیاب حکومت ، مضبوط جمہوریت اور مستحکم مملکت کی ضمانت ہے لیکن تنقید برائے تنقید نہ ہو۔ مثبت اور تعمیری تنقید ہونی چاہئے۔

مزیدخبریں