بھارتی یوم جمہوریہ پردنیا بھر میں کشمیریوں کا یوم سیاہ ‘ مظاہرے ‘ احتجاج‘ آسام میں دھماکے‘ مقبوضہ وادی میں 3 شہید
بھارت کے یوم جمہوریہ پر دنیا بھر میں کشمیریو ں نے یوم سیاہ منایا جب کہ بھارت نے مقبوضہ وادی کو فوجی چھائونی میں تبدیل کر دیا۔ احتجاج کے پیش نظر جگہ جگہ بھارتی فوجی اہلکاروں کی اضافی نفری تعینات کی گئی، ادھر وادی میں بھارت مخالف ریلیاں نکالی گئیں، ہڑتال رہی اور مظاہرے کئے گئے، حریت رہنمائوں کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کی جمہوریت مقبوضہ کشمیرمیں بری طرح بے نقاب ہو گئی، جموں و کشمیر پر غاصبانہ قبضے کیخلاف کشمیری بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کو دکھانے کیلئے سراپا احتجاج ہیں، بھارتی یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا مقصد بھارت کے غیرقانونی قبضے کیخلاف پیغام دینا ہے۔ یورپین دارالحکومت برسلز میں بھی کشمیریوں نے بھارتی یومِ جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منایا۔ اس حوالے سے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) بیلجیئم کے کارکنوں نے بھارتی سفارتخانے کے سامنے مظاہرہ کیا، جس میں خواتین اور بچے بھی شریک ہوئے۔ مظاہرے کے شرکاء مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، اسیروں کی رہائی، مودی حکومت کے حالیہ جارحانہ اقدامات اور آزادی کے حق میں مسلسل نعرے بازی کرتے رہے۔ پیرس کی گلیاں مودی مردہ باد کے نعروں سے گونج اٹھیں۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے زیر اہتمام بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر بھارتی ہائی کمشن کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت کوئی ملک ایسا نہیں جہاں کشمیری اور پاکستانی ہوں‘ وہاں بھارت کا سیاہ چہرہ بے نقاب نہ کیا گیا ہو۔ بھارت نے یوم جمہوریہ پر مقبوضہ کشمیر میں کارروائی کرتے ہوئے تین کشمیری نوجوان کو بہیمانہ تشدد کے ذریعے شہید کردیا۔ بھارت کے اندر بھی یوم سیاہ کئی ریاستوں میں منایا گیا۔ اس روز آسام بم دھماکوں سے گونج اٹھا۔ علیحدگی پسندوں نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کر رکھا تھا۔
مقبوضہ وادی سمیت دنیا بھر میں جہاں ایک بھی کشمیری آباد ہے‘ ہر سال بھارت کے یوم جمہوریہ کو یوم سیاہ کے طور پر منا کر بھارت کا جمہوریت اور سیکولرازم کے پیچھے بھیانک اور ظالم چہرے کو ضرور عیاں کرتا ہے۔ گزشتہ روز کسی بھی خطے میں موجود کشمیری زیادہ مشتعل نظر آئے کیونکہ بھارت کی طرف سے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرکے شب خون مارا گیا تھا جسے کشمیری کسی طور قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ 5 اگست 2019ء کے بھارتی شب خون مارنے کے اقدام کیخلاف ہر کشمیری غصے سے شعلہ جوالا بن گیا۔ کشمیری اسی روز مجسم احتجاج اور اشتعال بن کر سڑکوں پر نکل آئے‘ انکے جذبات بے قابو اور وہ کچھ بھی کر گزرنے پر آمادہ تھے۔ مودی سرکار نے کشمیریوں کے جذبات کا اندازہ کرتے ہوئے پوری وادی کو کرفیو کے ذریعے لاک کر دیا۔ آج اس بدترین کرفیو کی پابندیوں میں زندگی گزارتے انہیں 177 دن ہوچکے ہیں یعنی چھ ماہ ہوا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا کا طویل ترین کرفیو ہے جو بھارت نے اپنے ہی شہریوں پر مسلط کر رکھا ہے۔ چھ ماہ میں کشمیریوں پر ظلم و بربریت کی ہر تدبیر آزمالی گئی مگر کشمیریوں کے جذبہ حریت میں کمی نہ آسکی۔ وہ کرفیو کی پابندیوں کو تاراج کرکے سڑکوں پر نکلتے اور مودی سرکار کے ستم کو آئینہ دکھاتے ہیں۔ کرفیو کی پابندیوں کے باوجود فسطائی حکومت نے کشمیر کے شہروں اور قصبوں میں سکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات کئے رکھی‘ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے نگرانی کی جاتی رہی۔ بھارت نے کشمیر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سروس کو بدستور زیربار رکھا ہوا ہے۔ غیرجانبدار میڈیا‘ حقوق انسانی کی تنظیموں حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے مبصرین کو بھی مقبوضہ وادی میں داخلے کی اجازت نہیں۔ اسکے باوجود بھارتی نولاکھ سے زائد سفاک سپاہ کی بربریت کسی نہ کسی طور دنیا کے سامنے آجاتی ہے۔
بھارت کو دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کا زعم اور سیکولر ہونے کا دعویٰ ہے مگر اسکے عمل سے آج بھارت میں بدترین آمریت اور شدت پسندی سکہ رائج الوقت ہے۔ مودی حکومت کے ایسے ہی آمرانہ اور مذہبی شدت پسندانہ رویوں کے باعث آزادی کی دو درجن سے زائد تحریکیں زور پکڑ چکی ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے بعد پورے بھارت میں متنازعہ شہریت قانون کے باعث بغاوت کی سی کیفیت ہے۔ اقلیتیں مظاہرے کررہی ہیں۔ گزشتہ روز بھارتی ریاست کیرالہ میں متنازعہ شہریت ترمیم قانون کیخلاف احتجاج کیا گیا۔ کیرالہ میں لاکھوں افراد نے 620 کلومیٹر طویل انسانی زنجیر بنا ڈالی۔ نوبیاہتا جوڑوں نے بھی شرکت کی۔ شہری سڑک پر ایک قطار میں کھڑے نظر آئے۔ وزیراعلیٰ پنیا رائے وجیان نے بھی متنازعہ قانون کیخلاف احتجاج کیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق آئین کے تحفظ کے عنوان سے ممبئی‘ حیدر آباد اور کئی شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں۔ اترپردیش میں شہریت قانون کیخلاف احتجاج جاری ہے۔ 100 خواتین پر مقدمہ درج کیا گیا‘ 10 افراد کو پکڑ لیا گیا۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے کہا شہری ڈٹ جائیں آئین کیخلاف سازش کی گئی۔
مقبوضہ کشمیر کی 80 لاکھ آبادی پر نو لاکھ فورسز قابو پانے سے قاصر ہے۔ بھارت وسیع و عریض ملک ہے‘ آبادی ایک ارب 35 کروڑ ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کیلئے دو کروڑ فوجیوں کی ضرورت ہوگی۔ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ مودی شہریت بل واپس لینے اور مظاہرین اس سے کم پر تیار نہیں۔ حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوچکے ہیں۔ بھارت مودی کی نفرت کی لگائی آگ میں جل رہا ہے جس کی تپش پوری دنیا میں محسوس کی جارہی ہے۔ کئی ممالک نے بھارت کے بارے میں ٹریول ایڈوائزری جاری کی ہے۔ ان ممالک کی طرف سے اپنے شہریوں کو بھارت کے سفر سے منع کردیا گیا ہے۔ سیاحت کا باب تو برے طریقے سے بند ہوچکا ہے۔ مودی خود ہی خودکشی کی راہ پر رواں ہیں تو ان کو کون روک سکتا ہے۔ بعید نہیں مودی کی پالیسیوں‘ اقلیتوں و کشمیریوں سے نفرت اور حماقتوں سے بھارت ٹوٹ جائے۔ مودی سرکار کو اس کا تو شاید ادراک نہ ہو البتہ حالات کی خرابی اور عوام کے اندر پائے جانیوالے اضطراب کا احساس ضرور ہے۔ اوپر سے عالمی برادری کا دبائو بھی ہے۔ عوام کی توجہ بٹانے اور عالمی برادری کی بھارت کی اندرونی صورتحال پر جمی نظریں ہٹانے کیلئے بھارت پاکستان کیخلاف کوئی بھی مہم جوئی کر سکتا ہے جس کیلئے وہ آئے روز ایل او سی پر بلااشتعال فائرنگ کرکے پاکستان کو اشتعال دلانے کی کوشش کرتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے فالس فلیگ کے خدشات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان بہرحال کسی بھی صورتحال سے نبردآزما ہونے کیلئے تیار ہے۔ پاکستان میں سیاسی انتشار اپنی جگہ مگر جب بھارت کے ساتھ مڈبھیڑ کی نوبت آئی تو سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر افواج پاکستان کی پشت پر کھڑی ہوگی۔ جنگ کبھی خیر کی نوید نہیں لاتی۔ بستیوں اور انسانوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ زمینیں ہمیشہ کیلئے بنجر ہو جاتی ہیں۔ پیدا ہونیوالی نسلیں اپاہج ہوتی ہیں۔ جنگوں کے ہمیشہ ہولناک اور بھیانک نتائج ہی نکلتے ہیں مگر دشمن جنگ مسلط کرے تو مقابلے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہ جاتا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر ایشو دشمنی کی بنیاد اور سب سے بڑی وجہ ہے۔ بھارت کشمیریوں کو دہشت گرد اور پاکستان کو ان کا پشت پناہ قرار دیکر دنیا میں بدنام کرتا آیا ہے۔ حالانکہ بھارت پاکستان میں کئی کالعدم تنظیموں کو فنڈنگ کرتا ہے جس کے ثبوت خفیہ ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل ہوجاتا ہے تو پاکستان اور بھارت دشمنی کی وجہ ہی ختم ہو جائیگی۔ جنگ کا سرے سے امکان ہی نہیں رہے گا۔ بھارت کی طرف سے خطے کو بدامنی کی آماجگاہ بنادیا گیا۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے سے خطہ امن کا گہوارہ بن جائیگا۔ اگر جنگ ہوتی ہے تو اسکے بدترین اثرات دنیا کے دوسرے کونے تک بھی محسوس کئے جائینگے۔ لہٰذا جنگ کا انسداد اور سدباب دنیا کے اپنے مفاد میں ہے۔ عالمی برادری بالخصوص امریکہ اور اقوام متحدہ بھارت کو امن کی راہ دکھانے اور یہی راستہ اپنانے پر بہرصورت آمادہ کرے۔ صدر ٹرمپ تو بارہا کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں جس کیلئے انہیں بھارت پر دبائو ڈال کر اسے ثالثی کیلئے آمادہ کرنا ہوگا۔ بھارت شاید اپنی فطرت کے مطابق راست سمت اختیار کرنے پر تیار نہ ہو‘ تاہم وہ دنیا کا تن تنہاء مقابلہ نہیں کر سکتا‘ وہ اس وقت دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑے انسانی المیے کو جنم دے رہا ہے۔ اس کو اقتصادی پابندیوں کا ہتھیار دکھا کر مسئلہ کشمیر کے حل پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔