پنجاب اور پنجابیوں ہی کے ساتھ نہیں پنجاب کی تاریخ کے ساتھ بھی تعصب برتا جا تارہا ہے۔ متعصب تاریخ دانوں نے پنجابیوں کو ملفوف انداز میں بزدل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسی misperception یقینا پنجاب کی تاریخ غیر پنجابیوں کے ہاتھوں لکھنے کے باعث قائم ہوئی ہے۔ آج تک سکندراعظم کو دنیا کا سب سے بڑا فاتح قرار دیا جاتا ہے اس نے عرب پر یہ کہہ کر حملہ نہ کیا کہ یہ تو گھڑے کی مچھلی ہیں۔ جب چاہوں فتح کر لوں۔ وہ ملک ملک تاراج کرتا ہوا برصغیر تک آ پہنچا۔ اسکی ہیبت اور قہروجبر وت کا سن کر ہی ایران کا بادشاہ دارا راہِ فرار اختیار کر گیا۔ خوف سے بھاگتے ہوئے بچوں اور بیوی کو بھی خیمے میں لاوارث چھوڑ گیا۔ جب سکندراعظم جہلم پہنچا تو کسی مزاحمت کی امید نہیں کر رہا تھا مگر راجہ پورس ایک چٹان کی طرح مقابلے پر کھڑا تھا اس نے دارا کی طرح بزدلی سے پسپائی اختیار نہ کی۔ پورس گرفتار ہوا، اسے سکندر کے سامنے پیش کیا گیا اور تاریخ میں محفوظ جملوں کا تبادلہ ہوا۔سکندر نے قیدی راجہ سے پوچھا: ’’بتائو تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟‘‘۔’’وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتا ہے۔‘‘
بہادری سے متاثر ہو کر سکندر نے پورس کو اس کا تخت و تاج واپس کردیا تھا۔ جہلم کے بعد ملتان کے معرکہ میں سکندر کومہلک تیر لگا تھاجس پر آگ بگولہ ہو کر ملتان میں قتل و غارت کی انتہا کر دی مگر ملتان کے لوگ بھی بے جگری سے لڑے۔ سکندر اعظم کو سب سے زیادہ نقصان جہلم اور ملتان میں مزاحمت سے ہوا۔ اپنے زخموں کے باعث اور فوج کے حوصلہ چھوڑنے پر سکندر کو واپس جانا پڑا۔ اسی واپسی کے دوران سکندر موت کی وادی میں اتر گیا۔ دُلابھٹی نے اکبربادشاہ کے دور میں مغلوں سے بغاوت کی قیادت کی۔ اکبر کی فوج کو شکست دی ، تاہم انجام کار پھانسی پر جھولنا پڑا۔ بزدل پھانسیوں پر نہیں چڑھتے ،موت سے ڈرتے ہیں۔ احمد شاہ ابدالی کو پنجاب میں حملہ آور ہونے پر کس نے شکست دی۔ اس کا پہلا معرکہ پنجاب کے حاکم میرمعین الملک عرف میر منوں سے ہوا تھا۔ انگریزوں کیخلاف جنگ آزادی لڑنے والوں میں رائے احمد خان کھرل اور بھگت سنگھ کا نام کسی تعارف اور تفصیل کا محتاج نہیں۔ رنجیت سنگھ نے اپنے دور میں انگریزوں کو اس طرف منہ بھی نہ کرنے دیا۔ اس دور میں پنجاب کی سرحدیں افغانستان تک پھیلی ہوئی تھیں۔پھر کوئی پنجابیوں کو جنگجو دلیر اور جرأت مند نہ مانے تو یہ تعصب کی انتہا ہے۔انگریزوں کی مزاحمت پنجاب میں سب سے زیادہ ہوئی اور انگریز کی نفرت کا بھی پنجاب ہی زیادہ نشانہ بنا۔ ہندو بنیے کی سازش کا حصہ بن کر پنجاب کی ظالمانہ اور غیر منصفانہ تقسیم بھی اسی بنیاد پر ہوئی۔ انگریزوں کی پنجابیوں سے نفرت کا یہ حال تھاکہ دربار ہالوں، ہوٹلوں، ریستورانوں کے دربانوں کو معزز پنجابیوں کا لباس پہنا کر کھڑا کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ویٹروں کو بھی یہی لباس پہنا کر معزز پنجابیوں کی تضحیک کی گئی۔پنجاب کے ساتھ ظلم یہ بھی ہوا کہ سوائے دو کے آج تک پنجاب پر اسکے حقداروں کو حکومت بھی کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ تیس سال صوبہ کشمیری نژادوں کے حوالے رہا،۔ عارف نکئی کے بعد چودھری پرویز الٰہی کے خاندانوں کا تعلق اسی دھرتی سے ہے۔ چلیں جو پنجاب میں آ بسے پنجاب کی دھرتی نے انہیں پورا احترام دیا، حکمرانی تک کا حق دے دیا۔ بلوچستان میں بلوچی ، کے پی کے میں پشتو، سندھ میں سندھی میں تعلیم دی جاتی ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ یہ دیکھ کر کہ مقامی زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا بڑی خوشی ہوتی ہے مگر پنجاب میں ذریعہ تعلیم بھی پنجابی نہیں ہے۔ پنجاب میں پنجابی بولنے کی حد تک رہ گئی ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ 14کروڑ میں سے اکثریت زیادہ پڑھی لکھی نہیں اور پنجابی ان کی مادری زبان ہے۔ اگر پنجاب میں پنجابی کو ذریعہ تعلیم نہ بنایا گیا تو ماں بولی پنجابی کی بقا خطرے میں پڑ جائیگی اور شاید اس زبان کا بھی وجود نہ رہے۔ پنجاب کو اس کا حق دلانے کے ساتھ ساتھ پنجاب کے وقار کا شملہ بھی بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں انگریزوں سے بدلہ نہیں لینا کہ دربانوں ، بیروں اور پہریداروں کو مغرب کے معززین کا لباس زیب تن کرا دیا جائے البتہ پنجابیوں کی تضحیک کا سلسلہ آج کے دور میں جاری رکھنا ظلم ہے۔ یہ معززین کو برگشتہ کرنیوالی بات ہے۔ اس سے قبل کہ کوئی مہم چلے، تضحیک کا سلسلہ جاری رکھنے والوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے۔پنج پانیوں کی سرزمین جس نے بلھے شاہؒ،میاں محمد بخشؒ ،بابا فرید گنج شکرؒاور سلطان باہوؒ جیسے صوفی شاعر اور مفکر پیدا کیے اور جس دھرتی نے دُلا بھٹی، نظام لوہار، بھگت سنگھ ،غازی علم الدین شہید اور رائے احمد کھرل جیسے سورما پیدا کیے اس دھرتی سے بھی پوچھا جانا چاہیے کہ اسکے باسی آخر پنجاب کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔