دُنیا میں قوموں پر مشکل وقت آتے رہتے ہیں جو قومیں اور خاص طور پر رہبرِ قوم جب قومی ایشوز پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں تو منزل پر پہنچنا مشکل ہوتا ہے ۔پاکستان میں اس وقت بے وفائوں اور قومی مفادات پر اپنے نفس کی تسکین کیلئے اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے والے کم از کم بے نقاب ہو چکے ہیں اسی لیے پور ا زور حکومت کو غیر ضروری ایشوز میں اُلجھا کر قومی مفادات اور پاکستان کی ترقی کے راستے میں حائل ہو کر پاکستان اور پاکستانی قوم کی ترجیحات کا بڑی دیدہ دلیری سے خون کر رہے اور ان میں دوست دشمن سب کے نام آتے ہیں ۔ حکومت کو اندرونی اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے کبھی فارورڈ بلاک کبھی آٹے اور چینی کے مصنوعی بحران پیدا کر کے پاکستان کا وقار دنیا میں خراب کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں یہ کیا تماشا ہے ۔ احتساب کے ساتھ ذخیرہ اندوزوں سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے جو راتوں رات ارب پتی بن جاتے ہیں پھر بھی اُن کے پیٹ نہیں بھرتے ۔ چین 1949 ء میں آزاد ہوا ۔ اُس قوم کے لیڈر نے اپنی ترجیحات مقرر کیں ان میں سے ایک ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ تھا ۔ باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ ذخیرہ اندوی فوری ختم کی جائے وارننگز بھی دی گئیں مگر جب عمل نہ ہوا تو بڑے ذخیرہ اندوزوں کو چوکوں میں پھانسی دے دی گئی۔ اُ سکے بعد سے آج تک ذخیرہ اندوزی کرنے کی کوئی جرأت نہیں کر سکا ۔کوئی بھی کام کرنے کیلئے کبھی کبھی کوئی ماڈل ایڈوپٹ کرنا پڑتا ہے ۔ احتساب کیلئے ہم نے اندھا دھند شور ڈال دیا اور کوئی ماڈل سامنے نہیں رکھا اسی لیے آج قومی ادارے کی شب وروز محنت کے باوجود وہ رزلٹ سامنے نہیں آئے جن کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ جنھیں گرفتار کیا گیا سب ایسے نکل گئے جیسے مکڑی کے جالے کے اندر سے طاقتور چیز گزر جاتی ہے اور ہر کمزور چیز اس میں پھنس جاتی ہے ۔ماضی قریب میں ہم نے سعودی عریبیہ اور ملائیشیا کا احتساب ہوتے دیکھا ہے جو چند ہفتوں میںمکمل ہوا۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے یہا ں پر آٹا ، چینی ، مرچ، پیاز، لہسن دھنیا ، چاول ، دال گوشت اور دوسری روزمرہ کی ضروریات کا مہنگا ہونا لمحہ فکریہ بھی ہے اور باعث شرم بھی ہے ۔ اگر انتظامی معاملات پر گرفت اور سزا و ر جزا کا عمل شروع ہو جائے تمام افسران اور ماتحت ایک مشن سمجھ کر یکسوئی کے ساتھ خدمت اور محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر اس پر پوری توجہ مرکوز کردیں توہم انشااللہ ایک سال کے اند ر ہی شاید یہ چیزیں بڑی مقدار میں دنیا کو ایکسپورٹ کرنے کے اہل ہو جائیں ۔ مگر افسوس ہر طرف افرا تفری اور سازشوں کا موسم ہے۔ اقتدار کے اندر رات دن بند ر بانٹ ہو رہی ہے سارا زور اس پر ہے کہ ہم حکومت کو فلاں مسئلے پر سپورٹ کریں گے ۔ چیف الیکشن کمشنر ہماری مرضی کا لگا دیں تاکہ ہم بیچاری لٹی پٹی پاکستانی قوم کو یہ تاثر دے سکیں کہ ہم ڈرائی کلین ہو کر دوبارہ آرہے ہیں اور ہم سے طاقتور کوئی نہیں ہے ۔ وزیر اعظم صاحب ٹاسک مشکل ہے دنیا بھی ریاستِ مدینہ کے راستے میں رکاوٹ ہے اور اپنے بھی ۔ قوم کا ایک حصہ ضرور سمجھتا ہے کہ بڑے مقصد کیلئے چھوٹی چھوٹی قربانیاں دینی پڑتی ہیں مگر 22کروڑکی آبادی میں کتنے لوگ ہیں جو انتظا رکرنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ جہاں پر دو اور دو چارروٹیاں گنی جاتی ہوں وہاں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر فوری حل کرنا ضروری ہے۔ آپکے راستے میں ہر روز ایک نئی دیوار بنائی جاتی ہے اب عقل مندی یہ نہیں کہ اس دیوار سے ٹکرا کر اپنے آپ کو زخمی کرلیں بلکہ عقل مندی یہ ہے کہ ذرا بَل کھا کے گزر جائیں۔ قوم آپکی ناکامی دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔ پتہ ہے پاکستانی قوم کے بچوں نے کس طرح آپ سے محبت کی ہے۔ عمران خان صاحب وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی اللہ کریم نے آپکو دنیا میں وہ عزت عطا فرمائی ہے جو شاید بادشاہوں کے مقدر میں بھی نہ ہو اور آپ وزیر اعظم نہ بھی ہوں گے تو بھی آپکی عزت کم نہیں ہو سکتی۔ مگر یاد رکھو جس قوم کے تم حکمران ہو اس قوم نے پہلے ہی بہت زخم کھائے ہیں اس ملک پر بہت گہرے زخم لگ چُکے ہیںاب مزید سکت نہیں ہے ۔ وزیر اعظم صاحب !پتہ ہے کہ غربت کی وجہ سے اس قوم کی کتنی بیٹیوں کے سر میں چاندی آگئی ہے وہ بھی آپکی طرف دیکھ رہی ہیں ۔ اس قوم کا آپ مان ہو۔ آپ کہیں بھول تو نہیں گئے جب پاکستان کے بیٹے بیٹیاں آپکے لیے نکلے تھے ۔ آج اس قوم کے ساتھ ساتھ اس قوم کے غریب مسکین ، اپاہج سب آپکی طرف دیکھ رہے ہیں ہر صورت دال روٹی سستی کر دیں۔قوم نے آپ کو مسیحا مان کر آپ سے امیدیں لگائی ہیں مایوسی گناہ ہے مگر مہنگائی کی وجہ سے پھر بھی ایک دھیمی سی آواز آنا شروع ہو گئی ہے کہ :۔
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک