بالادست پارلیمان: شوشے اور دکھاوے

تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’مفت خوری‘‘ کی روایت وعادت کا خاتمہ کرے گی۔عمران خان صاحب کرپشن کے خلاف جہد مسلسل میں مصروف ہیں۔ان دنوں ان کی قوت واختیار کا حقیقی سرچشمہ 342اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی ہے۔اس کے قائد ایوان منتخب ہونے کی وجہ سے وہ اگست 2018میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔اس ایوان کا اجلاس مگر تین ماہ سے بلایا ہی نہیں گیا تھا۔
ہمارے آئین میں صراحتاََ لکھ دیا گیا ہے کہ ایک پارلیمانی سال کے دوران قومی اسمبلی کم از کم 130دن تک ملے گی۔ایک اجلاس ختم ہوجائے تو دوسرا اجلاس منعقد کرنے کے درمیان نوے روز سے زیادہ لمبا وقفہ نہیں ہوگا۔ یہ شق اگر موجود نہ ہوتی تو حکومت شاید رواں اجلاس بلانے کی ضرورت بھی محسوس نہ کرتی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے قبل حکومت اس کے لئے کوئی ’’ایجنڈا‘‘ تیار کرتی ہے۔اس کی بابت بھرپور بحث مباحثہ کویقینی بنانے کے لئے اپوزیشن کے ساتھ مل کر لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔اس کی تیاری کے لئے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے دفتر میں حکومت اور اپوزیشن نمائندوں کے درمیان ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ اسد قیصر صاحب مگر عمران خان صاحب کی نگاہ میں ’’سہاگن‘‘ رہنے کے لئے غیر جانب داری کا بھرم برقرار نہیں رکھ پائے۔
قواعدوضوابط کی کتاب مثال کے طورپر انہیں کلی طورپر یہ فیصلہ کرنے کا اختیار دیتی ہے کہ کسی بھی الزام کے تحت جیل یا نیب کی حراست میں رکھے رکن اسمبلی کو اس ایوان کے اجلاس میں شرکت کے لئے تحریری حکم پر دستخط کے ذریعے طلب کیا جائے۔ اس حکم کو ’’پروڈکشن آرڈر‘‘ کہا جاتا ہے۔جولائی 2018کے انتخاب کی بدولت قائم ہوئی قومی اسمبلی کے ابتدائی اجلاسوں میں وہ یہ حکم جاری کرتے رہے۔تحریک انصاف کے ’’کرپشن دشمن‘‘ حامیوں کو ایسے حکم تاہم بہت عجیب محسوس ہوئے۔ پاکستان میں صاف ستھری ریاست کے خواہش مند صحافیوں کے خون بھی کھولنا شروع ہوگئے۔ ٹی وی سکرینوں پر ماتمی آواز میں دہائی مچادی گئی کہ ’’اربوں روپے ‘‘ہڑپ کرنے کے الزام میں گرفتار ہوئے ’’چور اور لٹیرے‘‘ ایک ’’مقدس ایوان‘‘ میں معززین کی طرح کیوں لائے جاتے ہیں۔ معمولی جرائم میں گرفتار ہوئے عام انسان کو ایسی سہولت فراہم نہیں ہوتی۔ عمران خان صاحب بھی ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو عبرت کا نشان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ جولائی 2019میں وہ واشنگٹن گئے تو وہاں مقیم پاکستانیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار ہوئے افراد کے ساتھ عام مجرموں والا سلوک ہوگا۔ ان کے لئے پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہیں ہوں گے۔ اسد قیصر صاحب نے اپنے قائد کے وعدے کا پاس رکھا اور جی حضوری سے اپوزیشن کو ناراض کردیا۔ اس کے بعد بھی کئی واقعات ہوئے جنہوں نے اپوزیشن کو یہ فیصلہ کرنے کو مجبور کردیا کہ اسد قیصر غیر جانب دار نہیں۔ان کے ساتھ ملاقات محض وقت کا زیاں ہے۔
’’چور اور لٹیرے‘‘ سیاستدانوں کے ساتھ عام مجرموں والا سلوک کرنے کو بضد اور میڈیا پر چھائے کرپشن دشمن حق گو نجانے کیوں فراموش کئے ہوئے ہیں کہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کو معمولی ہی سہی قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔اس ایوان کی کارروائی چلانے والے قواعد وضوابط بدلنے کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں جس کے لئے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ ’’چور اور لٹیرے‘‘ سیاست دانوں کے ساتھ واقعات عام مجرموں والا برتائو یقینی بنانا ہے تو قواعد وضوابط کی کتاب میں سے وہ شق حذف کیوں نہیں کردی جاتی جو سپیکر کو کسی گرفتار رکن کو ایوان میں بلانے کا اختیار فراہم کرتی ہے۔ ’’گفتار کے غازی‘‘ مگر اس بنیادی حقیقت پر غور کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ شام کے سات بجے سے رات بارہ بجے تک محض ’’پھوڑی‘‘ پر بیٹھے کرپشن-کرپشن کی دہائی مچاتے رہتے ہیں۔
بہرحال اپوزیشن اور خاص طورپر نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ اسد قیصر سے ملاقات کوہرگز تیار نہیں۔وہ اگر تیار نہیں تو عمران حکومت کو ان کے ساتھ پنجابی محاورے میں بیان کردہ ’’خصماں نوں کھائو‘‘ والا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔قومی اسمبلی میں عمران حکومت کو 180اراکین کی حمایت میسر ہے۔کورم برقرار رکھنے کے لئے محض 86اراکین کی ایوان میں مسلسل موجودگی درکار ہے۔اس موجودگی کو یقینی بنائیں اور عوام کو دکھائیں کہ ان کے مفاد میں تیار ہوئے قوانین کی بابت اپوزیشن قطعاََکوئی دلچسپی نہیں دکھاتی۔ فقط اپنے ’’چور اور لٹیرے‘‘ رہ نمائوں کے لئے NROکی طلب گار ہے۔
فقط 86اراکین کو ایوان میں بٹھاکر ایوان کی کارروائی چلانے میں لیکن حکومت مسلسل ناکام رہتی ہے۔عموماََ شام پانچ بجے کے قریب اجلاس شروع ہوتے ہیں۔وقفہ سوالات ختم ہوتے ہی مگر اپوزیشن کا کوئی رکن کورم کی نشان دہی کردیتا ہے۔کورم مکمل کرنے کے لئے انتظار ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے وزیر اپنی جماعت کے اراکین سے پریشانی میں رابطے کرتے ہیں۔کورم مگر مکمل نہیں ہوتا۔ اجلاس کو دوسرے دن تک مؤخر کردیا جاتا ہے۔ کچھ بھی کام کئے بغیر حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی ’’دیہاڑی‘‘ اگرچہ لگ جاتی ہے۔ منگل کی شام اجلاس جمعہ تک مؤخر کردیا گیا۔ بدھ اور جمعرات کے دن قومی اسمبلی کے اجلاس منعقد نہیں ہوں گے۔ چھٹی کے یہ دن بھی تاہم کتابوں میں Working Daysہی شمار ہوں گے۔’’مفت خوری‘‘ کی اس سے بڑی مثال ہونہیں سکتی۔ہمارے ہاں مگر ’’سب چلتا ہے‘‘۔
ہم سب اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وطنِ عزیز میں پارلیمان محض ایک دکھاوا ہے۔’’شوشا‘‘ جس کا مقصد دُنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ پاکستان ایک ’’جمہوری‘‘ مملکت ہے جہاں حتمی فیصلہ سازی کا اختیار صرف ’’منتخب پارلیمان‘‘ کو میسر ہے۔ دُنیا مگر بے وقوف نہیں۔ہمارے جھانسے میں ہرگز نہیں آتی۔اس ضمن میں آپ کے ذہن میں اگر کوئی شبہ ہے تو محض یاد کرلیجئے کہ امریکہ کا نامزد کردہ زلمے خلیل زاد جب افغان مسئلہ کے ’’حل‘‘ کے لئے پاکستان آتا ہے تو ’’حل‘‘ ڈھونڈنے کہاں جاتا ہے۔
ہماری ’’سب پربالادست‘‘ شمار ہوتی قومی اسمبلی کی ایک پارلیمانی کمیٹی بھی ہے جس کی ذمہ داری خارجہ امور پر نگاہ رکھنا ہے۔اس کے کسی ایک رکن کوبھی خبر نہیں کہ افغان مسئلہ کے حل کے لئے قطر کے شہر دوحہ میںجو مذاکرات ہوئے ان کے نتیجے میں بالآخر کیا طے ہوا۔جو بنیادی خدوخال طے ہوئے تھے ان پر پیش رفت کا ان دنوں کیا عالم ہے۔مجھے کامل یقین ہے کہ تمکنت کی مجسم علامت مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب کو وزیر خارجہ ہوتے ہوئے بھی اس حوالے سے تفصیلات کا علم نہیں۔
خارجہ امور تو ’’وڈے لوگوں کی وڈی باتیں‘‘ہوا کرتی ہیں۔میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے لئے روزمرہّ زندگی کے حوالے سے اذیت دہ خبر یہ تھی کہ قومی اسمبلی کارواںاجلاس شروع ہونے سے عین ایک دن قبل بجلی کے فی یونٹ نرخ میں دو روپے کا اضافہ ہوگیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رواں اجلاس شروع ہوتے ہی وزیر بجلی عمر ایوب خان اپنی نشست سے کھڑے ہوکر ازخود ایک پالیسی بیان پڑھتے۔ ہم بدنصیبوں کو آگاہ کرتے کہ یہ اضافہ کیوں ضروری تھا۔عمر ایوب مگر ہمارے اولین ’’دیدہ ور‘‘‘ فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے ہیں۔ان کے والد قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے ہیں۔ وہ ’’پارلیمانی بالادستی‘‘ کے ڈھونگ سے خوب واقف ہیں۔
ان کی بے اعتنائی کو مگر ہماری پریشانیوں کی بابت گھبراہٹ کے ڈرامے لگاتی اپوزیشن کو للکارنا چاہیے تھا۔منگل کی شام پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے اس ضمن میں پیش قدمی دکھائی۔ فریاد کناں رہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کے بارے میں اپوزیشن نے تحریک التواء کے ذریعے بحث کا مطالبہ کررکھا ہے۔ قومی اسمبلی کے ’’خودمختار‘‘ ڈپٹی سپیکر جناب قاسم سوری نے خود جواب دینے کے بجائے مگر شاہ محمود قریشی صاحب سے ’’رہ نمائی‘‘ چاہی۔ شاہ صاحب نے لچھے دار گفتگو کے ذریعے وعدہ کیا کہ معاملہ یقینا زیر بحث آئے گا۔ منگل کے دن مگر اس کے لئے وقت مختص نہ ہوپایا۔’’ہمارے نمائندوں‘‘ کے پاس ہمارے درد کا علاج ہی موجود نہیں۔وہ یہ علاج ڈھونڈنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔تین دن اسمبلی میں اپنی شکل دکھاکر پورے ہفتے کی تنخواہ وصول کرلیتے ہیں۔بجلی کی قیمت میں اضافہ ان کا درد سر نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن