کشمیریوں اور کسانوں کے زبردست مظاہرے‘ سکھ کاشتکاروں نے لال قلعہ پر ترنگا ہٹا کر اپنا پرچم لہرا دیا
بھارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ کے روز 26 جنوری کو بھارتی احتجاجی کسانوں نے تمام رکاوٹیں توڑ کر نئی دہلی پر یلغار کر دی۔ لال قلعے میں جنگ کا سماں تھا۔یہ سکھ کاشتکاروں کی فتح کا دن ثابت ہوا۔ لال قلعے سے ترنگے کو ہٹا کر سکھوں کا پرچم لہرا دیا۔ بھارتی کسانوں نے بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر الٹی میٹم کی مدت ختم ہونے پر نئی دہلی پر دھاوال بول دیاتھا۔ بھارتی کسان تمام رکاوٹیں توڑ کر نئی دہلی میں داخل ہو گئے۔ کسانوں کے زبردست مظاہروں کے دوران بھارتی کسانوں کی نازی پورہ‘ سنگھو‘ ٹکری بارڈر پر پولیس سے جھڑپیں ہوئیں۔ بھارتی پولیس نے کسانوں پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے شیل فائر کئے جس سے ایک کسان ہلاک‘ متعدد زخمی ہو گئے۔ بھارتی کسانوں نے لال قلعہ پہنچ کر بھارتی پرچم ترنگے کی چھٹی کرا دی اور وہاں سکھوں کا مذہبی پرچم لہرا دیا۔ لالہ قلعہ میں پولیس اور کسانوں میں جھڑپیں اتنی شدید تھیں‘ لگ رہا تھا جیسے کوئی جنگ چھڑ گئی ہو۔ بھارتی کسان ٹینکوں کے مقابلے میں ٹریکٹر لے آئے۔ کسان متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔حکومت نئی دہلی میں سکھ کسانوں کے احتجاج کے باعث یوم جمہوریہ کی پریڈ بھی صحیح طور پر منعقد نہ کر سکی۔ بھارتی فوج کی پریڈ میں چند فوجی دستوں نے شرکت کی۔ پریڈ دیکھنے والوں کی تعداد بھی کم تھی۔ انڈین آرمی کے موٹر سائیکل سوار دستوں نے بھی پریڈ میں حصہ نہیں لیا۔ بھارتی دارالحکومت میں کسانوں کے ٹریکٹر مارچ کی وجہ سے پریڈ کو خلاف روایت جلد افراتفری میں نمٹا دیا گیا۔
یوم آزادی اور یوم جمہوریہ پر بھارت کو ایسی سبکی کا کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کسانوں نے حکومت کی پوری کوششوں اور تیاریوں کے باوجود حکومتی رٹ کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ حکومتی عملداری سوالیہ نشان بن کر رہ گئی۔ دارالحکومت کے سب سے اہم مقام جہاں خصوصی مواقع پر ترنگا لہرایا جاتا ہے‘ اس کا بھی حکومت تحفظ کرنے میں ناکام رہی۔ کسانوں کے مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔ انکے مسائل حل کرنے کے بجائے مودی سرکار نے سات ریاستوں میں موجود سکھ کسانوں کو اقلیت کی نظر سے دیکھتے ہوئے کسان کش قوانین بنا دیئے جن کو حکومت واپس لینے اور مظاہرین انکے خاتمے سے کم پر تیار نہیں‘ نتیجتاً حکومت کو بدترین رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور بدستور حکومت ہٹ دھرمی سے کام لے رہی ہے اور سکھوں کو مسلمانوں کی طرح دیوار سے لگانے کی مزید کوششیں تیز کر دی ہیں۔ معروف برطانوی اخبار گارڈین نے بھارت میں کسانوں کے احتجاج اور مودی کی طرز سیاست پر اداریہ میں لکھا ہے کہ مودی کا طرز سیاست آمرانہ ہے۔ کسانوں کا احتجاج مودی سرکار کیلئے بھیانک خواب ثابت ہو سکتا ہے۔
انڈین آرمی کو تاریخی ہنگامے کے بعد سکھ فوجیوں کی طرف سے بھی محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے جس کے بعددہلی میں موجود سکھ فوجیوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی ڈیوٹی تبدیل کر دی ہے۔ اہم مقامات پر پہرہ دینے والے سکھ فوجیوں سے ہتھیار بھی لے لئے گئے ہیں۔بھارتی سیاسی عسکری قیادت کو خدشہ ہے کہ 1984 میں سانحہ گولڈن ٹیمپل کے وقت جس طرح سکھ یونٹوں نے بڑے پیمانے پر بغاوت کرتے ہوئے امرتسر کی طرف مارچ شروع کر دیا تھا، اسی طرح اب سکھ فوجی دہلی میں اکٹھے نہ ہو جائیں۔ رپورٹس کے مطابق انڈین آرمی دہلی کے سکھ احتجاج کو ختم کرنے کیلئے اسی واقعے کا سہارا لے گی اور قوی امکان ہے کہ چند دنوں میں بڑے پیمانے پر طاقت کا استعمال کر کے دہلی کو سکھوں سے خالی کرایا جائے گا۔ سکھوں نے ٹریکٹر مارچ کے بعد اب بھارتی پارلیمنٹ کے گھیرائو کا اعلان کیا ہے۔
یوم جمہوریہ پر معاملات میں بگاڑ مودی حکومت کے اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے گئے متعصبانہ رویے کے باعث پیدا ہوا۔ بھارتی حکومت اور گودی میڈیا اس معاملے کو لے کر پاکستان پر الزام لگا رہا ہے۔ انہیں کسانوں کے احتجاج کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ ایک بار پھر بھارت کی عسکری و سیاسی قیادت اور میڈیا کی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف ہے۔ کسانوں کا احتجاج ابھی ختم نہیں ہوا‘ مودی جب چاہیں کسانوں سے مذاکرات کرکے یہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں مگر انکی طرف سے یہ ڈرامہ بازی مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے کی گئی ہے۔ لہٰذا وہ مذاکرات میں کامیابی کیلئے سنجیدہ ہی نہیں اور کسان پارلیمنٹ کے گھیرائو کا اعلان کر چکے ہیں۔ معاملات مزید مخدوش ہوتے نظر آرہے ہیں۔
اقلیتوں کے حوالے سے بھارت کو عالمی برادری کی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ایک طرف مودی سرکار انسانی حقوق کی پامالی سے باز آنے پر تیار نہیں دوسری طرف وہ دنیا کی نظروں میں دھول جھونک کر اپنے مظالم کو اخفا میں رکھنا چاہتی ہے۔ ایسے مواقع پر وہ ایسے حربے اور ہتھکنڈے اختیار کرتی ہے جس سے دنیا کی توجہ ان معاملات سے ہٹ جائے۔ وقتی طور پر اس نے سکھوں کے احتجاج سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے 20 جنوری کو چین کے ساتھ مزید جھڑپوں کا سلسلہ شروع کردیا اور اب وہ پاکستان کے ساتھ کوئی مہم جوئی‘ کوئی فالس فلیگ اپریشن کا اعادہ کر سکتا ہے۔ پلوامہ کی ڈرامہ بازی مودی کے بااعتماد صحافی ارنب گوسوامی کے وٹس اپی سے سامنے آچکی ہے۔ ایسی ہی مزید ڈرامہ بازی بھی مودی سرکار کی طرف سے ہو سکتی ہے۔ اس موقع پر جب 14 فروری 2019ء کو پلوامہ نوٹنکی کے بعد بھارت پاکستان کو دھمکیاں دے رہا تھا تو وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ بھارت نے کوئی سٹرائیک ایڈونچر یا حملہ کیا تو پاکستان جواب کے بارے میں سوچے گا نہیں‘ فوراً جواب دیگا اور پھر پاکستان نے 26 فروری کو بھارت کی ناکام مہم جوئی کا 27 فروری کو کامیابی سے جواب دیا تھا۔ اب پھر ایسا ہوتا ہے تو پاکستان ایک بار پھر تاریخ کو دہرائے گا جو تاریخ کے اوراق پر سنہری الفاظ میںابھی دمک رہی ہے۔