پنڈی شہر کا اشرف میرا اچھا کولیگ اور دوست تھا۔ایک دن مجھے نیلا گنبد چوک لاہور میں سر راہ ملا، میں نے سلام کے بعد اس سے لاہور آنے کا سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ لاہورسیکرٹریٹ میں اپنے آرڈر کروانے آیا ہے جو کہ پرنسپل نے توپہلے ہی کر دئے تھے اور اب صرف رسمی کاروائی کے لئے سیکریٹری نے مہر ثبت کرنی تھی ۔ ازراہ مروت ، میں بھی اس کے ساتھ ہولیا۔ راستے میں رکشے میں اس نے بتایا کے اس نے امریکہ کا ڈاکٹری کاای سی ایم ایف جی پاس کیا ہے ، جو آج کل امریکہ کے یوایس ایم ایل ای کے برابر ہے لیکن اس کی باتوں سے مجھے لگا کے شاید پاکستان میں ہی رہنا چاہتا ہے انہی باتوں کے دوران ہم سیکرٹریٹ میںسیکرٹری ہیلتھ کے دفتر کے باہر ملحقہ کمرے میںپہنچ گئے میرے دوست ڈاکٹر صاحب اپنے آرڈر نکال کر اندر داخل ہوے توکچھ زیادہ دیر لگ گئی میں نے اندر جھانکا ، تو میرا دوست پسینے سے شرابور ایک کونے میں سہما کھڑا نظر آیا ۔ میں نے جھٹ پوچھا کہ کیا ہوا ، ہو گئے آرڈر ، تو اس نے کہا کے کلرک کو میری فائل ہی نہیں مل رہی ، آرڈر کہاں ہوںگے اوپر چلتے ہوے پنکھے سے کئی لٹکی ہوی فائلیں بھی پنکھے کے ساتھ گھوم پھر رہی تھیںاضطراری طور پر میری نظریں اوپر کی طرف اٹھ گئیںکہ کہیں میرے دوست کی فائل بھی اوپر کسی پنکھے کے ساتھ چمٹی ہوئی یا گھومتی ہوئی نہ پائی جائے تا ہم میرے دوست نے کافی دیر انتظار کے بعد بانپتے ہوئے گھبرائے ہوئے لہجے میں باہر آکر مجھے کان میں آہستگی سے فرمایا کہ یار میں امریکہ ہی نہ چلا جائوںکیوںکہ وہاں تو ڈاکٹروں کی فائلز اس طرح گم نہیں ہوتی ہوں گی اور آج تیس سال سے زیادہ عرصہ بیتا، میر ا وہ دوست امریکہ سے واپس نہیں آیا البتہ جب فون پر کبھی بھی وہ بات کرے تو فائل کی گمشدگی کی بابت ذکر ضرور ہوتا ہے اور آج کل کے ڈاکٹروں کے حالات ضرور پوچھتا ہے کہ ہم کیا ابھی بھی اسی لگن میں مجبورپڑھے لکھوں کی فائلوں سے کھلوار کر رہے ہیں۔ میں اسے کیا بتائوں کے یہاں آج بھی کلرک بادشاہ ہی ہے اور کچھ پوسٹوں کا صرف کلرک بادشاہ کو ہی پتہ ہوتا ہے یہ خفیہ پوسٹیں بکتی ہیں اور حبیب جالب کے بقول وہی حالات ہیں فقیروں کے۔ دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے اور وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے۔ بے قدری کی اسی دھما چوکڑی کے طفیل ہمارے ٹیکنیکل اور ہنر مند افراد باہر کی منڈیوں میں نہ چاہنے کے باوجود بکنے اور اپنا مادروطن چھوڑنے پر مجبور ہیں ،یہی برین ڈرین ہوتا ہے نہ کہ آپ کے ملک کا ذہین ترین طبقہ اپنی قدر وتحفظ کی خاطر بیرون ممالک میں رہنے کو ترجیح دے رہا ہے نیو جرسی میں میرا ایک اور دوست شاہد قدیر پاکستانیوں کی مدد کر کے خوشی محسوس کرتا ہے لیکن اپنے ملک کے رشوت والے سرخ فیتے سے نالاں ہے، ہے نہ المیہ، آج بھی مادر وطن کو وہ اتنا ہی پیار کرتا ہے بلکہ یہ تمام کڑھتے بھی زیادہ ہیں مگر کیا کریں کچھ بھی تو نہیں کرسکتے ۔قارئین مجھے اچانک کہیںدور سے ایک دھن جو شاید انیس سو پچاس میں شکیل بدایونی کے لکھے ہوئے ،لتا کے گائے نرگس پر فلمائے ،،، لگن میرے من کی بلم نہیں جانے،، یادگار گیت تھا،نہ جانے آج کے حالات میں کیوں یاد آنے لگا، فلم بابل کا یہ گیت نوشاد کی موسیقی میں ایک تاریخ رقم کر گیا اوپر سے نرگس کی اداکاری اور لتا کی گائیکی نے اس گانے کو امر کردیا ۔ ایسے ہی جیسے آج محترم سعید آسی کے سفرنامے’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ نے میرے جیسے قاری کو ورطہ حیرت میں ڈبودیا ،جب برونائی، انڈونیشیا، مالدیپ کے ان کے لکھے سفر نامے کو پڑھ کر ان ممالک کو بھی اپنے وطن عزیز سے زیادہ پر امن پا یا اور ان مسلم ممالک کے رہن سہن سے قدرے خوش بھی ہوا ،بے شک وہ امریکہ جیسی آسمان کو چھوتی لا تعداد عمارتوں کے مالک نہیں ، لیکن انڈونیشیا میںٹیکنالوجی کی ترقی اور ، مالدیپ، برونائی میں عوام کو کم ازکم امن وامان کی سہولت میسر نظر آئی۔ نہ قتل وغارت کے بے رحم واقعات روح کو جھنجوڑتے ہوئے نظر آئے ہم بقول محترم سعید آسی صاحب کس قومی لگن میں پھر رہے ہیںآج کبھی ہمارے روزویلٹ ہوٹل کی بولی لگ رہی ہے،کبھی ٹیلیتھان کمپنی چھ ارب ڈالر ریکوڈک کیس میں مانگ رہی ہے ہمارے پی آئی اے کے جہاز ضبط کئے جارہے ہیں اور کہیں ترک کمپنی ہماری نواب قوم کے کچرے کاٹھیکہ بڑھانے کا کہہ رہی ہے کس کس کا نام لوں میں اس سوچ میں گم ہوں کہ ہماری لگن تو قوم کا وقار ہونا چاہئے لیکن یہاںتو قوم کی خدمت کی لگن’’ آواز دے کہاں‘‘ کا سر الاپ رہی ہے لیکن پھر و ہی پکا اور ستر سالہ پرانا راگ سننے کو مل رہا ہے ،چاہے کوئی کیا کہے اکیلی یاسمین راشد کہاں سے ہیلتھ کا بجٹ لائے، جناب یہ لگن ہی تو ہوتی ہے جس سے انسان سودوزیاں سے بے نیاز ہو جاتا ہے، بے خوف ہوجاتا ہے او ر اسی ترقی کی لگن میں ضد کی وجہ سے افراد اورقومیںجیت حاصل کر پا تی ہیں۔