آزمایا آپشن پھر آزمایا جائے گا
گردش ایام کو حکمت سے ٹالا جائے گا
بند گلی میں آچکا ہے جنوں کا قافلہ
کون نکلے گا وہاں سے کب نکالا جائے گا
جب تلک اک پیچ پر رھنے کا قائم ہے بھرم
ان ہی لفظوں کا ہر اک جانب حوالہ جائے گا
کھل رہی ہیں نیب میں پھر سے پرانی فائلیں
کچہ چٹھہ جانے کس کس کا کھنگالا جائے گا
آ رہی ہیں نو بنوع کی سامنے بے نامیاں
ان کا مدعا بھی کسی کے سر پہ ڈالا جائے گا
سیل دریا جب ہواباہر کناروں سے کبھی
کون جانے کس طرح اس کو سنبھالا جائے گا
تاج شاہی جو سجائے پھر رہا ہے اے ضیاء
کیا خبر کس دن سر راہ وہ اچھالا جائے گا
شرافت ضیاء