نیرنگ دوراں

Jan 28, 2021

آزمایا آپشن پھر آزمایا جائے گا
گردش ایام کو حکمت سے ٹالا جائے گا
بند گلی میں آچکا ہے جنوں کا قافلہ 
کون نکلے گا وہاں سے کب نکالا جائے گا 
جب تلک اک پیچ پر رھنے کا قائم ہے بھرم 
ان ہی لفظوں کا ہر اک جانب حوالہ جائے گا
کھل رہی ہیں نیب میں پھر سے پرانی فائلیں 
کچہ چٹھہ جانے کس کس کا کھنگالا جائے گا 
آ رہی ہیں نو بنوع کی سامنے بے نامیاں 
ان کا مدعا بھی کسی کے سر پہ ڈالا جائے گا
سیل دریا جب ہواباہر کناروں سے کبھی
کون جانے کس طرح اس کو سنبھالا جائے گا 
تاج شاہی جو سجائے پھر رہا ہے اے ضیاء 
کیا خبر کس دن سر راہ وہ اچھالا جائے گا
شرافت ضیاء 

مزیدخبریں