بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ امریکہ کی صدارت کا فاتح وہ ہوتا ہے، جس کا اعلان میڈیا کرتا ہے اور ہارنے والا امیدوار اپنی تقریر میں اپنی شکست کو قبول کر لیتا ہے لیکن در حقیقت ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ کسی صدارتی امیدوار کی فتح کا باضابطہ اعلان چار ماہ پر محیط ہوتا ہے جو جنوری میں جا کر مکمل ہوتا ہے اور یہ طویل عمل در اصل اُس سمجھوتے کا نتیجہ ہے جو کہ امریکہ کے دستور کے خالقین میں طے پایا تھا، جو کہ اس بات پہ قائل نہ ہو سکے تھے کہ عام ووٹر کسی لائق لیڈر کو منتخب کر سکیں۔امریکہ کے بانیوں کو اپنے شہریوں پر اعتماد نہیں تھا کہ وہ ایک درست فیصلہ کر سکتے ہیںلیکن ساتھ ہی وہ، اس فیصلہ سازی کا پورا اختیار کانگریس کو بھی نہیں دینا چاہتے تھے۔ جس وجہ سے انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ سب سے پہلے امریکی شہری انتخاب کرنے والے کو ووٹ دیتے ہیں، ہر انتخاب کے لیے نمائندہ اراکین کے نام سے معروف ارکان کو منتخب کیا جاتا ہے۔ یہ ارکان ملک کے رائے دہندگان کے لیے ثالث کا کردار ادا کرتے ہیں۔ فی الوقت ان ارکان کی تعداد 538 ہے۔ کسی صدارتی امیدوار کے انتخاب کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے 270 نمائندہ ارکان کی واضح اکثریت ملے، جس کا مشاہدہ آپ نے اس دفعہ کے منفرد الیکشن میں کر لیا ہے، پھر امریکا میں صدارتی امیدوار کے انتخاب کے لیے ایک ادارے کا استعمال کیا جاتا ہے جسے الیکٹورل کالج کہا جاتا ہے۔ الیکٹورل کالج کوئی تنظیم یا کالج نہیں ہے بلکہ یہ امریکا کے بانیوں کے ذریعہ وضع کیا اور ملک کے آئین میں شامل کیا گیا ایک نظام ہے۔ اس کی تشکیل کا مقصد متعدد ممکنات جیسے عوامی رائے دہی
کے ذریعے انتخاب، ریاستی قانون ساز اسمبلی کے ذریعے انتخابات اور وفاقی مقننہ کے اراکین کے ذریعے انتخاب کے درمیان مفاہمت کرنا ہے۔ اس کے بعد یہ انتخاب کنندہ صدرکو ووٹ دیتا ہے اور پھر کانگریس الیکشن کے فاتح کا اعلان کرتی ہے۔مزید برآں، امیریکن یونیورسٹی میں سائن انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اینڈ پالیٹکس کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایمی ڈیسی کہتی ہیں کہ ایک تو انتخاب والا دن ہوتا ہے، جب انتخاب کرنے والوں کو منتخب کیا جاتا ہے، پھر دسمبر میں یہ انتخاب کرنے والے مل بیٹھتے ہیں اور صدر کیلئے رائے دہی ہوتی ہے، اور پھر جنوری میں جا کرکانگریس انتخابات کی تصدیق وتوثیق کرتے ہوئے صدر کا اعلان کرتی ہے۔چنانچہ اس دفعہ کے اس طویل الیکشن والے عمل میں جوبائیڈن بازی لے گیا، حالانکہ 1988 اور 2007 میں بھی انہوں نے صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں حصہ لیا لیکن جلد ہی دستبردار ہوگئے تھے۔امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے جوبائیڈن سے عہدے کا 78 سال کی عمر میں صدارتی حلف لیا اور یوں انہوں نے باقاعدہ طور پر منصب سنبھال لیا ہے اور وہ امریکا کے 46 ویں صدر بن گئے۔اسی طرح امریکا کی پہلی سیاہ فام خاتون نائب صدر کمالہ ہیرس نے بھی عہدے کا حلف اٹھایا۔کیپٹل ہل میں ہونے والی تقریب حلف برداری میں حسب معمول سابق صدور براک اوباما، بل کلنٹن اور جارج بش بھی شریک تھے لیکن سبکدوش ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 150 سالہ امریکی تاریخ میں پہلے امریکی صدر ہیں، جنہوں نے نئے آنے والے صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہیں کی اور تقریب حلف برداری سے پہلے ہی وائٹ ہاؤس چھوڑ کر چلے گئے۔سطحی طور پر شاید امریکی ڈیموکریٹک امیدوار اور ان کے مدمقابل میں شاید کوئی خاص فرق نظر نہ آئے لیکن جو بائیڈن کی سیاسی اور ذاتی زندگی پر نظر دوڑائیں تو ان میں اور صدر ٹرمپ میں فرق صاف ظاہر ہے۔صدر ٹرمپ کی نسبت جو بائیڈن کو ایک نسبتا ملنسار اور عوامی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ عوام میں اپنے جوش خطابت کے لیے اتنے مشہور نہیں جتنا اپنی خوش اخلاقی اور لوگوں میں گھل مل جانے کے لیے۔صدر ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن عالمی سفارتکاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ تین بار سینٹ کی طاقتور امور خارجہ سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ سن 2008 میں جب وہ صدر باراک اوباما کے نائب صدر کے امیدوار قرار پائے تو اس میں ان کے اس تجربے کا بڑا عمل دخل تھا۔صدر ٹرمپ کی نسبت جو بائیڈن پاکستان کو بھی بخوبی جانتے ہیں اور پاکستان کے کئی دورے کر چکے ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں کے دوران ان کے پاکستان کے سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کے ساتھ براہ راست رابطے رہے ہیں اور وہاں سول ملٹری عدم توازن کے مسئلے سے بخوبی واقف ہیں۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں بطور امریکی نائب صدر ان کے اسلام آباد کے ایک دورے میں ان سے بارہا پوچھا گیا کہ اگر امریکا پاکستان کا اتحادی ہے تو آئے دن قبائیلی علاقوں میں ڈرون حملے کرکے اس کی خودمختاری کیوں پامال کرتا ہے؟اس موقع پر انہوں نے جو جواب دیا اس سے ان کی پاکستان کے بارے میں سمجھ بوجھ واضح ہوتی ہے۔انہوں نے مزید کہا اپنے 30 سالہ تجربے کی بنیاد پر وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج کا ملکی دفاع میں زبردست کردار رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی خودمختاری کوئی پامال کرتا ہے تو وہ یہاں بیٹھے انتہاپسند ہیں جو آپ کے ملک کا نام خراب کرتے ہیں۔جو بائیڈن کے دورِ صدارت کا آغاز صدارتی حکم ناموں سے ہوا اور انھوں نے پہلے ہی دن 15 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیئے۔جو بائیڈن کے زیادہ تر حکم نامے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں کو ختم کرنے سے متعلق ہیں۔واضح رہے کہ ہر آنے والا امریکی صدر اسی طرح شروع کے دنوں میں بہت سارے حکم نامے جاری کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایسا ہی کیا تھا تاہم ان کے کئی حکم ناموں کو بعد میں عدالت میں چیلنج کر دیا گیا تھا تاہم رون کلائین کا خیال ہے کہ جو بائیڈن کے جاری کردہ حکم ناموں کا وہ انجام نہیں ہو گا جو ٹرمپ کے حکم ناموں کا ہوا تھا کیونکہ نئے صدر قانون کی روح کو سمجھتے ہیں، چنانچہ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جوبائیڈن نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی سابق صدر ٹرمپ کے دور کے کئی فیصلے واپس لینے کے احکامات دیئے جن میں امریکی صدر نے بعض مسلم اکثریتی ملکوں کے شہریوں پر امریکا میں امیگریشن پر پابندی ختم کرنے کے بل پر بھی دستخط کر دیئے ہیں۔امریکی صدر کے احکامات کے تحت نوجوان تارکین وطن کو تحفظ دیا جائے گا اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر روک دی جائے گی۔امریکی صدر نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پیرس معاہدے کو پھر سے بحال کر دیا جب کہ تمام وفاقی املاک پر ماسک لازمی قرار دینے کے بل پر بھی دستخط کر دیئے ہیں۔اسی طرح صدر جو بائیڈن نے کورونا وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے تمام وفاقی دفاتر میں ماسک کی پابندی کو بھی لازمی کردیا اور عالمی ادارہ صحت سے امریکا کے انخلاء کا عمل روکنے کا حکم دیا ہے۔نو منتخب صدر کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ مفاہمت پسند سیاست دان ہیں۔ وہ سینیٹ کے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے 35 برس تک رکن رہے اور عموماً سب کو ملا جلا کر ساتھ لیے چلتے رہے۔ انھوں نے عراق جنگ میں صدر بش کی حکومت کا ساتھ دیا تھا اس لیے بعض مبصرین کی نظر میں وہ آئندہ اپنی حکومت میں بھی میانہ روی اختیار کریں گے۔
امریکہ میں صدارت کا انتخاب اور جوبائیڈن
Jan 28, 2021