اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) ضابطہ فوجداری میں ترامیم کی تفصیلات سامنے آ گئی ہیں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بار نے فوجداری قانون میں ترامیم مسترد کردیں اور وزارت قانون نے بار کا موقف مسترد کردیا۔ ترامیم کے مطابق ملزموں کے معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ میں ماہر نفسیات شامل ہوں گے، ایس ایچ او کے لیے گریجویشن کی ڈگری لازمی ہو گی اور جہاں مقدمات کا بوجھ زیادہ ہو گا وہاں ایس ایچ او اے ایس پی رینک کا ہو گا۔ مفرور ملزموں کے شناختی کارڈ اور بنک اکاؤنٹس بلاک کر دیے جائیں گے جبکہ جلسے جلوسوں میں اسلحہ لے کر جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ دفعہ 161 کے تحت ہونے والے بیانات کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی جائے گی، پراسیکیوٹر تفتیش سے مطمئن نہ ہو تو مزید یا ازسرنو تحقیقات کا کہہ سکے گا۔ فوجداری مقدمات کا ٹرائل 9 ماہ میں ہو گا، ہر ماہ ہائیکورٹ کو پیشرفت رپورٹ جمع کرانی ہو گی، غیر سنجیدہ مقدمہ بازی پر سیشن کورٹ 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکے گی اور 9 ماہ میں ٹرائل مکمل نہ ہونے پر ٹرائل کورٹ ہائیکورٹ کو وضاحت دینے کی پابندی ہو گی، ٹرائل کورٹ کی وضاحت قابل قبول ہوئی تو مزید وقت دیا جائے گا۔ بل میں یہ بات بھی شامل کی گئی ہے کہ ٹرائل کورٹ میں گواہوں کے بیانات کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے گی، گواہ بیان کے ٹرانسکرپٹ سے اختلاف کرے تو ریکارڈنگ سے استفادہ کیا جائے گا، گواہ عدالت نہ آ پائے تو ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کروا سکیں گے جبکہ بیرون ملک مقیم گواہ بھی مجاز افسر کی موجودگی میں بیان ریکارڈ کروا سکے گا۔ ترامیم کے مطابق فوجداری مقدمات میں تین دن سے زیادہ کا التواء نہیں دیا جا سکے گا، تین دن سے زیادہ التوا دینے پر ٹرائل کورٹ کو وجوہات بتانا ہوں گی۔ منشیات مقدمات میں سزائے موت ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سزائے موت کی جگہ مجرم کو باقی تمام زندگی جیل میں گزارنے کی سزا ہو گی۔ ریلوے ایکٹ میں بھی سزائے موت ختم کرنے کی تجویز دیدی گئی ہے جبکہ غیر قانونی پولیس حراست پر 7 سال تک سزا کی تجویز کی گئی ہے اور مفرور ہونے پر بھی 7 سال تک کی سزا بھی مقرر کرنے کی تجویز کی گئی ہے۔ خواتین کی جاسوسی اور پیچھا کرنے کو بھی جرم قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ کوئلے پر چلنے اور کسی کو پانی میں پھینکنے کو بھی جرم قرار دینے کی تجویز ہے۔ ترامیم میں یہ بھی لکھا ہے کہ آڈیو، ویڈیو اور ای میلز بھی قابل قبول شواہد تصور ہوں گے، ویڈیو درست ثابت ہو تو بنانے والے کی عدالت میں پیشی کی ضرورت نہیں ہو گی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بار نے فوجداری قانون میں ترامیم مسترد کردیں اور کہا کہ وزارت قانون و انصاف نے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر فوجداری ترامیم پیش کیں، ایسی ترامیم سے نظام مزید بوسیدہ ہوجائے گا۔ اعلامیہ میں کہا کہ وزیر قانون نے ایسی فوجداری ترامیم کر کے اپنی نا اہلی ثابت کی ہے۔ وزارت قانون کو سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنا چاہیے تھی، وزارت قانون کی ترامیم محض نظر کا دھوکہ ہیں، فوجداری قوانین کی ترامیم تجویز کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی سے بھی مشاور ت نہیں کی گئی جو قابل مذمت ہے۔ وزارت قانون نے اعلامیہ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ بار کا یہ کہنا غلط ہے کہ وکلاء برادری سے مشاورت نہیں کی گئی۔ پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار، وکلاء تنظیموں کو ڈرافٹ بھجوایا گیا تھا۔ بار ایسوسی ایشنز کو دو بار خطوط بھی لکھے لیکن کوئی تجویز نہیں آئی۔ سپریم کورٹ بار نے فوجداری قوانین میں ترمیم کیلئے رائے نہیں دی۔ مجوزہ ترامیم عوام کو جلد انصاف کیلئے مددگار ثابت ہوں گی۔ ترامیم کی مخالفت کرنے والے قومی مفاد میں نہیں ہیں۔ وکلاء برادری نے وزیر قانون کی جانب سے لاء ریفارمز کا خیرمقدم کیا۔
ضابطہ فوجداری میں ترامیم مسترد : سپریم کورٹ بار ، وکلا تنظیموں نے رائے ہی نہیں دی : وزارت قانون
Jan 28, 2022