بارہا اس کالم میں آپ کو اُکتا دینے کی حد تک یاد دلاتا رہتا ہوں کہ ہم ’’شک شبے‘‘ کے زمانے میں جی رہے ہیں۔یہ اصطلاح پنجابی کے عظیم شاعر بلھے شاہ کے بے پناہ تخلیقی ذہن نے آج سے کئی سو برس قبل افراتفری کے اس دور میں ایجاد کی تھی جب مغلیہ سلطنت بہت تیزی سے اپنے زوال کی جانب لڑھک رہی تھی۔دلی کی کمزور ہوتی گرفت سے پھسلتا پنجاب مائی باپ کہلاتی ’’سرکار‘‘ سے محروم ہورہا تھا۔اس پر قبضے کے لئے مرہٹہ اور افغان بے تاب تھے۔یہاں سے اُبھری سکھ تحریک کے جتھے تاہم انہیں جابجا للکاررہے تھے۔’’حشر عذاب‘‘ کے اس موسم میں اشرافیہ کے موقع پرست عناصر حیران کن مکاری سے ’’جہیڑا جتے اوہدے نال‘‘ کا ارادہ باندھے ہوئے تینوں قوتوں کو بیک وقت اپنی وفاداری کایقین دلاتے رہے ۔
ریاست کی گرفت دورِ حاضر میں بھی پاکستان ہی نہیں دنیا کے بے تحاشہ ممالک میں کمزور ہورہی ہے۔ریاستی اداروں کے ساتھ روایتی میڈیا کا بھی اعتبار نہیں رہا۔ صحافیوں کو ’’لفافہ‘‘ ٹھہرادیا گیا ہے۔پھلوں کی ٹوکری پر بک جانے والے دروغ گو۔ بے اعتباری کے اس عالم میں ’’سچ‘‘ جاننے کے لئے سوشل میڈیا سے رجوع کیا جارہا ہے۔اس کی بدولت ’’سچ‘‘ مگر وہی تصور کیا جاتا ہے جو اندھی نفرت وعقیدت میں جنونی حد تک تقسیم ہوئے فریقین کے دلوں میں پہلے سے موجود تعصبات کا اثبات کرے۔
نسبتاََ طویل اور دانشوارانہ سنائی دیتی تمہید باندھنے کی ضرورت مجھے بدھ کے دن کراچی میں نمودار ہوئے چند واقعات کی سوشل میڈیا پر ہوئی ’’رپورٹنگ‘‘ کے مشاہدے کے بعد محسوس ہوئی ہے۔سب سے قبل جو ویڈیو اس ضمن میں وائرل ہوئی اس میں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن نشستوں پر بیٹھے ایم کیو ایم کے ایک رکن پولیس تشدد کے غضب کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔لاٹھیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ زمین پر گرگئے۔ بے بس ولاچار ہوئے ایم پی اے کو اس کے باوجود ’’ڈولی ڈنڈا‘‘ کرتے ہوئے مزید ذلت کا نشانہ بنایا گیا۔
وہ تصویر دیکھتے ہی میرے ذہن میں بھی فوری خیال یہ آیا کہ وحشیانہ زیادتی ہوئی ہے۔بزدل ہوا دل مگر سوشل میڈیا پر تبصرہ آرائی کے قابل نہیں رہا۔میرے کئی ساتھی ا گرچہ اب بھی حق وصداقت کا علم اٹھانے کو بے چین رہتے ہیں۔انہوں نے ٹویٹر اور فیس بک پر مذکورہ عمل کی شدید مذمت کی۔
سندھ میں پیپلز پارٹی 2008ء سے مسلسل صوبائی حکومت چلارہی ہے۔پولیس مبینہ طورپر اس کے کامل اختیار میں ہے۔پولیس تشدد کی جووڈیو وائرل ہوئی اسے دیکھتے ہی متحرک ہوئے انسان دوست افراد لہٰذا پیپلز پارٹی کو اس کے شہری حقوق کے احترام والے دعوے یاد دلانے کو مجبور ہوئے۔صوبائی حکومت اور اس کے ترجمان اپنے دفاع میں یہ اصرار کرتے رہے کہ ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی پولیس کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ’’ریڈزون‘‘ میں درآنے کو بضد تھے۔انہیں ہر صورت روکنا اس لئے بھی ضروری تھا کیونکہ اس زون میں موجود ہوٹلوں میں ان دنوں پی ایس ایل میں حصہ لینے والے کرکٹر ٹھہرے ہوئے تھے۔ان میں سے کئی غیر ملکوں سے بھی آئے ہیں۔دعویٰ یہ بھی ہوا کہ ’’پہلا وار‘‘ ایم پی اے صداقت صاحب کی جانب سے ہوا تھا۔پولیس نے فقط ’’جوابی کارروائی‘‘ کی ہے۔
حقیقتاََ کیا ہوا ہے؟ اس کا کھوج لگانے کی کسی نے ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ اپنا اپنا ’’سچ‘‘ دہرانے میں جت گئے۔ دریں اثناء ایم کیو ایم کے رہ نما خالد مقبول صدیقی مشتعل بھی ہوگئے۔وفاقی وزیر ہوتے ہوئے بھی جمعرات کے دن کراچی کو ’’یوم سیاہ‘‘ کے نام پر بند کرنے کی تیاری شروع کردی۔سندھ حکومت کے ترجمانوں کو اس کی وجہ سے 1990ء کی دہائی والی ایم کیو ایم یاد آنا شروع ہوگئی۔ ’’بوری بند لاشوں‘‘ اور ’’قائد کے اشارے‘‘ پر شہر بند کرنے والی داستانوں کی یاد دہانیاں۔ اپنا اپنا سچ دہرانے کو بضد فریقین کو مگراس حقیقت کا احساس تک نہ ہوا کہ ان کے مابین جاری بحث نے عمران حکومت سے توجہ ہٹادی ہے۔ ’’خطرناک‘‘ ہوجانے والی کہانی پس منظر میں چلی گئی ہے اور وہ گہماگہمی بھی غائب جو ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ نے اُکسائی تھی۔
جمعرات کی صبح اُٹھ کر ٹویٹر دیکھا تو وہاں بحث یہ جاری تھی کہ گزشتہ روز کراچی ہی میں ایم کیو ایم کے ایک دیرینہ کارکن پولیس تشدد کی وجہ سے جاں بحق ہوئے یا ان کی وفات کا حقیقی سبب دل کا جان لیوا دورہ تھا۔سوشل میڈیا کے برعکس 24/7چینل اگرچہ پی ایس ایل کا تازہ سیزن لگانے کو بے تاب نظر آئے۔اس سیزن کے طفیل لاکھوں کے اشتہارات بک ہوچکے ہیں۔ کراچی میں بدامنی کی وجہ سے پی ایس ایل کا سیزن مؤخر ہوگیا تو چینلوں کو پریشان کن مندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حالات بالآخر جو بھی رُخ اختیار کریں یہ بات عیاں ہے کہ 1980ء کی دہائی سے سندھ میں نمودار ہوئی ’’شہری اور دیہی‘‘ تفریق ایک بار پھر اپنی وحشت دکھانے کو مچل رہی ہے۔راکھ میں دبی یا دبائی چنگاریاں بھڑکنے کو تیار بیٹھی ہیں۔ممکنہ شعلوں پر قابو پانے کی کوئی صورت نکالنے کے بجائے سندھ کی سیاست سے جڑے فریق اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر متحرک کرنے میں مصروف ہوگئے ہیں۔پیپلز پارٹی کے آپس میں بٹے مخالفین کو قوی امکان نظر آرہا ہے کہ کسی نہ کسی صورت یکسر ہوکرثابت کردیا جائے کہ یہ جماعت فقط ’’سندھی وڈیروں‘‘ کی نمائندہ ہے۔اسے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے شہر کراچی میں آباد شہریوں کے روزمرہّ مسائل کا قطعاََ احساس نہیں۔اس شہر کو بلکہ ’’جاگیر‘‘ کی مانند تصور کرتے ہوئے اس پر ’’قابض‘‘ ہے۔
کراچی پر مبینہ ’’قبضہ‘‘ کے خلاف بنیادی کردار ایم کیو ایم ہی نے ادا کیا تھا۔ 2016ء کے بعد سے لیکن وہ تتر بتر ہونا شروع ہوگئی۔ 2018ء کے انتخابات میں عمران خان صاحب کی تحریک انصاف نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ’’کراچی کے لئے‘‘ مگر طاقت ور وفاقی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی کچھ کر نہیں پائی۔اس کے بارے میں نمودار ہوئی مایوسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم کیو ایم اب اپنی ماضی والی قوت کے احیاء کو بے چین ہے۔ یہ فیصلہ مگر ہو نہیں پارہا کہ اس شہر کی ’’حقیقی‘‘ ترجمان اب مصطفیٰ کمال کی بنائی جماعت کو تصور کیا جائے یا معاملات اپنے ’’اصل‘‘کو لوٹ آئیں۔
ایم کیو ایم کے نمودار ہونے سے قبل کراچی میں سیاست کا اجارہ کئی برسوں تک جماعت اسلامی کو میسر رہا۔اس کی وجہ سے ’’دین‘‘ ہی کے نام پر سیاست کرنے والی ایک جماعت مولانا شاہ احمدنورانی مرحوم کی قیادت میں بھی ابھری۔وہ جماعت بھی بالآخر تتر بتر ہوگئی۔جماعت اسلامی بھی ان دنوں بلدیاتی قانون کے خلاف دھرنا دئیے اپنے احیاء کی کوشش کررہی ہے۔
سندھ میں ’’شہری اور دیہی‘‘ کے نام پر اٹھے سوال بہت دیرینہ ہیں۔ان کے حل فراہم کرتے ہوئے جوابات مگر ہماری ہر نوع کی اشرافیہ کا درد سر کبھی نہیں رہے۔ وہ لسانی اور نسلی جڑوں ہی سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔انہیں بھلا کر نئے خیالات سوچنے کو آمادہ نہیں۔پیپلز پارٹی کو اس تناظر میں 2008ء سے پیش قدمی لینے کے بے پناہ مواقع نصیب ہوئے تھے۔ وہ ان کا کماحقہ فائدہ نہ اٹھا پائی۔اپنی "Core Constituency"ہی کو مطمئن رکھنے میں مصروف رہی۔
شہر کراچی میں اپنے اجارے کو بے چین ایم کیو ایم کو بھی لیکن دریافت کرلینا چاہیے کہ ’’ان تلوں‘‘ میں ’’تیل‘‘ باقی نہیں رہا۔کراچی میں آبادی کا تناسب اور تقسیم اب ویسے نہیں رہے جو 1980ء کی دہائی تک موجود تھے۔اندرون ملک سے مسلسل ہوتی نقل مکانی نے نئے حقائق کھڑے کردئیے ہیں۔مثال کے طورپر پشتو بولنے والے اب کابل،قندھار،کوئٹہ یا پشاور کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی تعداد میں کراچی میں آباد ہوچکے ہیں۔2010ء میں جو سیلاب آیا تھا اس کی وجہ سے سندھ کے بے تحاشہ دیہات سے ہنر مند اور دیہاڑی دار بھی بتدریج کراچی منتقل ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ کپاس کے بجائے گنا اگانے کے عمل نے جنوبی پنجاب کے لاکھوں افراد کوبھی اس شہر کو منتقل ہوجانے کو مجبور کردیا۔
آبادی کے اعتبار سے جو نئے حقائق نمودار ہوئے ہیں ان کی ٹھوس ترجمانی سندھ کی سیاست سے جڑے دیرینہ فریقین کے توسط سے ہوتی نظر نہیں آرہی۔ معاملات قابو سے باہر ہوئے تو ماضی میں اجارہ دار رہے فریقین کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔ہر صورت نئے دعوے دار ابھریں گے اور اپنے حصے کے طلب گار ہو ں گے۔