مجھے تو محسوس ہوتا ہے کہ ’’سٹیٹس کو‘‘ ٹوٹا نہیں بلکہ مزید مضبوط ہو گیا ہے اور ایک صفحے والی یکجہتی کو کوئی آنچ نہیں آنے والی۔ آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے، گزشتہ ایک ہفتے سے موجود سیٹ اپ کے چل چلائو کے عندیے کس طرح حکومتی صفوں کے اندر سے مل رہے تھے۔ اس ناہموار فضا میں وزیراعظم عمران خان نے عوام کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کے پروگرام میں ایک سوال پر اگلے پانچ سال کیلئے بھی اپنے اقتدار کے یقینی ہونے کا پورے اعتماد کے ساتھ اظہار کرتے ہوئے یکدم اور پورے رعب دبدبے سے یہ فقرہ اچھال دیا کہ میں ایوانِ اقتدار سے نکل کر باہر سڑکوں پر آگیا تو زیادہ خطرناک ہو جائوں گا۔ انکے اس فقرے کو اپوزیشن جماعتوں اور دوسرے حکومت مخالف حلقوں نے فوراً اچک لیا اور الیکٹرانک‘ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر تندوتیز بیانات اور معنی خیز سوالیہ نشانات کے ڈھیر لگا کر موجودہ سیٹ اپ کے چل چلائو والا تاثر بنا دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے ذہین و فطین سینیٹر پرویز رشید نے تو ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیا اور عمران خان کا یہ فقرہ ابھی فضائوں میں گردش ہی کررہا تھا کہ ان کا چُسکیاں بھرتا ہوا یہ سوال نما بیان منظر عام پر آگیا کہ عمران خان صاحب زیادہ خطرناک ہونے کی دھمکی کس کو دے رہے ہیں۔ یہ سوال ایسا ہٹ ہوا کہ ہر زبان پر چڑھا نظر آنے لگا۔ بلاول‘ مریم‘ مولانا فضل الرحمن سب اپنے اپنے انداز میں اسی ایک ہی مفہوم پر مبنی سوال دہراتے نظر آئے اور پھر عمران خان سے گلوخلاصی کی بے پایاں خواہشات میں چکناچور ہوئے احباب کو یہ پراپیگنڈا کرنے کا موقع مل گیا کہ عمران خان صاحب کے اس بیان پر انہیں لانے والے سخت برہم ہیں اور اب ایک صفحے کی یکجہتی والا سایہ انکے سر سے اٹھ چکا ہے۔ بعض جلد بازوں نے تو اپنی خواہشات کے مطابق موجودہ سیٹ اپ کے ’’پیک اپ‘‘ ہونے کی پوری کہانی گھڑ کر سوشل میڈیا کی زینت بنا دی جس میں ایک ملک کا خصوصی چارٹر طیارہ بھی اسلام آباد ایئرپورٹ پر عمران خان صاحب کا منتظر ظاہر کر دیا گیا۔
ایسی چل چلائو والی فضا میں اگلی ہنگامہ خیزی کی فضا ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جاری کردہ 2021ء کی سالانہ رپورٹ نے پیدا کر دی جس میں پاکستان کا کرپشن انڈکس 2018ء سے 2021ء کے چار سال کے عرصے کے دوران 117 سے 140ویں نمبر تک پہنچا ہوا دکھایا گیا جو پی ٹی آئی کے دور میں حکومتی گورننس کی کمزوری کے باعث ادارہ جاتی کرپشن کے بتدریج بڑھنے کا ٹھوس ثبوت تھا۔ چونکہ اسی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سابقہ رپورٹوں کی بنیاد پر خود عمران خان نے سابق حکمرانوں کی چور ڈاکو والی ’’خاصیت‘‘ اجاگر کرکے ان کا ناطقہ تنگ کیا ہوا تھا اس لئے ان کا یہی پراپیگنڈا ان کیخلاف استعمال کرنے کا بھی اپوزیشن کیلئے نادر موقع نکل آیا۔
بدھ کی شام تک تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ موجودہ سیٹ اپ کیلئے بس اب چند لمحوں کا ہی معاملہ رہ گیا ہے اور چل چلائو والی باتیں محض باتیں اور محض قیاس آرائیاں نہیں بلکہ ’’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں‘‘ کا عملی نمونہ بن چکی ہیں۔ بیرسٹر شہزاد اکبر کا یکایک آنیوالا استعفیٰ ایسے ہی کسی منظر میں چاشنی بھرتا نظرآرہا تھا جبکہ اسدعمر‘ مخدوم شاہ محمود قریشی‘ پرویز خٹک اور چودھری محمد سرور جیسے وزیراعظم کے مصاحبین کے خودسری والے بیانات نے پہلے ہی رونق میلہ لگایا ہوا تھا۔ اسدعمر نے تو پی ٹی آئی سے باہر کے بعض حلقوں کے ساتھ باقاعدہ رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا جس میں وزیر مملکت فرخ حبیب انکے ساتھ چسپاں ہوئے نظر آتے تھے۔
چل چلائو والی ایسی دل خوش کن منظرکشی پر حکومتی مخالفین کی باچھیں کھلنا بھی فطری امر تھا چنانچہ بلاول اپنے 27 فروری والے لانگ مارچ پر ڈٹ گئے اور پی ڈی ایم نے اپنے 23 مارچ والے لانگ مارچ کیلئے پائوں کی مٹی نہ چھوڑنے کا عزم باندھ لیا۔ پھر یکایک کیا ہوا۔ بس آنکھ کھلی اور سہانا سپنا ڈرائونا خواب بن گیا۔ بدھ کی شام کراچی میں وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے لوکل باڈیز ایکٹ کیخلاف دھرنا دیئے بیٹھے ایم کیو ایم کے کارکنوں کی صفوں میں ارتعاش پیدا ہوا‘ انکے ہاتھوں میں ڈنڈے اور لاٹھیاں تھیں اور شاید انکے پاس موجود اسلحہ کی نمائش بھی ہوئی ہوگی۔ وہ اشتعال انگیز لب و لہجہ کے ساتھ پولیس اہلکاروں پر ڈنڈے لاٹھیاں برساتے وزیراعلیٰ ہائوس کی جانب بڑھنے لگے اور پھرپولیس کے ہاتھوں انکی دُھنائی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ آنسو گیس‘ واٹر کینن اور لاٹھی چارج کے مشاقانہ مظاہروں نے جائے وقوعہ کو میدان کارزار بنا دیا۔ مرد و خواتین کارکن زخمی اور بے ہوش ہو کر گرنے لگے‘ گھسیٹا گھسیٹی میں ایم کیو ایم کے ایک رکن سندھ اسمبلی کی تو شلوار اترتے اترتے رہ گئی۔ ایسا اودھم مچا‘ ایسی ہاہاکار ہوئی کہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے سارے مناظر ہی تبدیل ہو کر رہ گئے۔ کچھ لمحے پہلے موجودہ سیٹ اپ بالخصوص وزیراعظم کے بخیئے ادھیڑے جا رہے تھے‘ پھر یکایک سارے غضب و غصہ کا رخ سندھ کی حکمران پیپلزپارٹی کی جانب ہو گیا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ تو عارضۂ قلب میں نڈھال ہیں (خدا انہیں صحتِ کاملہ عطا فرمائے)، سندھ کے وزراء وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں۔ رات کو ایم کیو ایم کے ایک آرگنائزر کے چل بسنے کی خبر چلی تو ماحول اور بھی گھمبیر ہو گیا۔ بس ایک ہلکی سی چابی گھمانے کی ہی دیر لگی ہے…؎
پل میں یوں تبدیل سب منظر ہوا
جو یہاں تھے‘ وہ کہیں کھونے لگے
’’بدن بولی‘‘ اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل والے معتوبین پس منظر میں چلے گئے اور جنہوں نے اسی کراچی میں گزشتہ تین ہفتے سے جاری جماعت اسلامی کے دھرنے پر کوئی پتہ بھی نہ ہلنے کی فضا بنائی ہوئی تھی وہ ایم کیو ایم کے چند گھنٹے کے دھرنے میں اپنے لئے سب کچھ اتھل پتھل کر بیٹھے۔
ارے! آپ ’’سٹیٹس کو‘‘ ٹوٹنے کی توقع رکھتے ہیں‘ ایک صفحے کی یکجہتی میں کسی کھلبلی کے متمنی ہیںاور ادھر صورتحال یہ ہے کہ ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ والا ماحول جب چاہے بنالیا جاتا ہے۔ ڈوریاں بندھے لوگ اسی کام کیلئے تو مخصوص ہیں۔ آپ ناہمواریوں کی فضا بنائیں، وہ سونے پر سہاگہ پھیر لیتے ہیں۔ آپ کسی انہونی خوشی پر باچھیں کھلاتے پھریں‘ وہ سوئی پھیر کر آپ کی آنکھوں میں خون کے آنسو بھر دیتے ہیں۔ آپ ٹکرانے کا سوچیں، وہ ’’گُچھی مار‘‘ سے آپ کو نڈھال و بے حال کر دینگے۔ ارے! آپ آقا و غلام کے فرق کو کیوں بھول بیٹھے ہو۔ بس ’’دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی‘‘ والی حقیقت جان جائو اور ایک صفحے میں کھلبلی کے تصور کو جھٹک دو۔ کیونکہ…؎
اس شہر میں ہر شخص کا ایمان بکا ہے
قیمت مجھے معلوم ہے، تم نام بتائو
ایک صفحے میں کھلبلی کا تصور
Jan 28, 2022