ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کرپشن میں 16 درجے ترقی کر کے 124 ویں نمبر سے دو سال سے بھی کم عرصے میں 140 ویں نمبر پر آچکا ہے۔ حسب معمول حکومتی ترجمانوں نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے۔ اس رپورٹ سے ایک بات تو بہرحال یہ سامنے آئی کہ کرپشن میں پاکستان کے تمام ادارے ابھی بھی ہمارے نظام انصاف میں پائی جانیوالی کرپشن سے پیچھے ہیں کیونکہ اس انڈیکس کے مطابق دنیا کے 180 ممالک میں پاکستان کرپشن کے حوالے سے 140ویں نمبر پر ہے گویا 40 ممالک ابھی بھی پاکستان سے پیچھے ہیں جبکہ ہماری عدلیہ کے حوالے سے ’’دی ورلڈ جسٹس پراجیکٹ‘‘ سے جاری کردہ رول آف لاء انڈیکس 2021 ء کی رپورٹ کے مطابق انصاف کی فراہمی کے حوالے سے پاکستان کا 139 ممالک میں 130 واں نمبر ہے گویا پاکستان فراہمی انصاف کے حوالے سے صرف 9 ممالک سے پیچھے ہے۔ اگلی رپورٹ تک یہ ’’مقابلہ‘‘ کہاں تک پہنچتا ہے اس پر کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے مگر ایک بات طے ہے کہ
؎ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو حکومتی ترجمانوں نے مسترد کر دیا اور کسی نے اس رپورٹ کو نوازشریف کی سازش قرار دیا ہے جبکہ کسی نے اسے قانون کی حکمرانی کے منفی اثرات کہا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کہتی ہے کہ دنیا بھر میں بدعنوانی میں کمی جبکہ پاکستان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاستی گرفت کمزور ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ تو اب آئی ہے جبکہ کرپشن کی داستانیں تو بچے بچے کی زبان پر ہیں اور بطور اخبار نویس مجھے ایسی ایسی معلومات ہیں کہ قلم لکھنے کی اجازت نہیں دیتا پھر ضمیر کچوکے لگاتا اور ملامت کرتا ہے کہ جب بڑے اور طاقتورکے خلاف قلم نہیں اُٹھا سکتے تو پھر دوسرے اور تیسرے درجے کے کرپٹ عناصرکے خلاف کیوں لکھا جائے۔
آئے روز کرپشن لاقانونیت اور بدعنوانی کے نت نئے قصے سامنے آرہے ہیں۔ ایک صوبے میں ایک ایسا بھی محکمہ انٹی کرپشن کا ڈائریکٹر جنرل تعینات ہے جس کے خلاف نیب میں کرپشن کے متعدد ثبوت موجود ہیں اور انکوائریاں بھی زیرالتوا ہے مگر ساتھ ہی وہ ڈی جی کی آسامی پر بیٹھ کر صوبے بھر میں کرپشن کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ اخلاقی جرأت ہو تو ایسی ہی ہو۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بلدیاتی ادارے چند دن کیلئے بحال ہو کر اپنی مدت بھی پوری کر گئے اور تحلیل بھی ہو گئے مگر ان چند دنوں میں پنجاب میں جو ریکارڈ کرپشن ہوئی اس پر حکومت سب کچھ جانتے ہوئے بھی مکمل خاموش ہے۔ ہوا یوں کہ بلدیاتی ادارے بحال ہوتے ہی ٹھیکیداروں کی طرف سے سینکڑوں نہیں ہزاروں درخواستیں موصول ہونا شروع ہوئیں کہ انہوں نے بلدیاتی ادارے تحلیل کیے جانے سے قبل فلاں فلاں کام کیا تھا جس کی ادائیگی نہیں ہو سکی اور تین سال بعد نہ ہی ترقیاتی کاموں کا ثبوت رہا اور نہ ہی کوئی تصدیق کر سکا مگر جس جس کے بھی مقامی رکن اسمبلی اور بلدیاتی اداروں کے عملے سے معاملات طے پا گئے اس کی درخواست نہ صرف منظور ہوئی بلکہ چند ہی دنوں میں ادائیگیاں بھی ہوگئیں اور اس حوالے سے سب سے زیادہ کرپشن جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع میں ہوئی جبکہ بعض معلومات کے مطابق مظفر گڑھ سرفہرست رہا۔ اب ہوا یوں کہ جوترقیاتی کام محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ہائی وے یا دیگر کسی بھی محکمے نے کرائے ان کو بھی بلدیاتی اداروں کے کاریگروں نے اپنے کھاتے میں ڈال کر دھڑا دھڑ ٹھیکیداروں کو کروڑوں اربوں میں ادائیگیاں کردیں۔ اس کرپشن کی معلومات متعلقہ اداروں کو بھی تھیں مگر مجال ہے جو کوئی بھی قلم اس حوالے سے حرکت میں آیا ہو بعض جگہ فارمولا یہ تھا کہ ٹھیکیداروں کو بل کا صرف دس سے پندرہ فیصد دیا جاتا تھا اور باقی رقم حصہ بقدر جثہ تقسیم ہو تی رہیں جس کی معلومات سب کو ہیں مگر کارروائی موجودہ دور میں سہولت کاری میں تبدیل ہو تی گئی ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چند ’’دفاتر‘‘ لاہور اور اسلام آباد میں کام کر رہے ہیں جو ٹرانسفر پوسٹنگ سے لیکر ہر طرح کی سہولت کاری دے رہے ہیں اور ایک ’’دفتر‘‘ بہاولپور میں بھی موجود اور انتہائی فعال ہے۔ اتنے قصے ہیں کہ پاکستان کے ہر ضلع اور تحصیل میں باقاعدہ قصہ خوانی بازار کھولے جا سکتے ہیں۔
میں جس وقت یہ کالم لکھ رہا تھا مجھے ایک رپورٹر نے بتایا کہ ایک سابق ایم ایس نشتر ہسپتال کے خلاف 4 کروڑ روپے خوردبرد کے مصدقہ ثبوت موجود تھے اور ان کے خلاف انکوائری جاری تھی مگر اچانک انکوائری رک گئی اور انکوائری ان کی فوری تعیناتی میں تبدیل ہوگئی۔ صوبائی دارالحکومت کے ترقیاتی ادار ے کے ایک انجینئر جنہوں نے 78 کروڑ کی کرپشن کی تھی‘ وہ تفتیش میں دودھ نہائے‘ پاک صاف ہوئے تو انہوں نے بحالی کی کوشش کی مگر ان کی بحالی کیلئے کوئی تیار نہ ہوا کہ الزامات سنگین تھے۔اس دوران ان کی ڈیل خطہ گوجرانوالہ کے ایک ہونہار نوجوان سے ہو گئی جو دونوں میاں بیوی گزشتہ دو سال میں اربوں روپے بیرون ملک منتقل کر چکے ہیں اور اس منتقلی کے ثبوت بھی ’’دوستوں‘‘ کے پاس موجود ہیں۔ مذکورہ انجینئر کی بات طے ہوئی تو ڈی جی کو حکم ہوا کہ بحالی کے احکامات ان کے گھر پہنچائے جائیں کہ پیسے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا ، پھر یونہی ہوا کہ مذکورہ انجینئر کو ان کی بحالی اور تعیناتی کے احکامات ان کے گھر بھجوائے گئے۔ کرپشن کا اس سے بڑھ کر تحفظ اس سے پہلے کبھی دیکھا نہ سنا۔
چند ہفتے قبل روٹین کے مطابق ووٹرز لسٹوں کی تصدیق کا عمل شروع کرایا گیا جو اچانک بند کردیا گیا۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے ۔ الیکشن کمیشن کے زیر انتظام ووٹرز لسٹوں کی تصدیق ہمیشہ سے ہی کی جاتی ہے مگر اس مرتبہ ووٹرز لسٹوں کی تصدیق کیلئے گھر گھر جانے والے اساتذہ کرام کو جس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا‘ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی اور پھر اساتذہ کی شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت سے شہروں میں ووٹرز لسٹوں کی تصدیق کا عمل تا حکم ثانی روک دیا گیا ہے۔ اساتذہ نے ہاتھوں میں ووٹرز لسٹیں پکڑے جب تصدیق کیلئے مختلف علاقوں میں گھر گھر رابطہ شروع کیا تو لوگ انہیں آڑے ہاتھوں لینے لگے کہ اتنی مہنگائی میں کون ہم سے ووٹ مانگنے آیا ہے۔ اساتذہ نے لوگوں کو بتایا کہ وہ حکومتی پارٹی کی طرف سے نہیں آئے بلکہ ووٹرز لسٹوں کی تصدیق کر رہے ہیں مگر عوام کی اکثریت نے مہنگائی کا رونا رو کر انہیں جلی کٹی سنانا شروع کر دیں۔ اساتذہ نے جب اس تکلیف دہ صورتحال سے اپنے متعلقہ افسران کو آگاہ کیا اور بتایا کہ لوگ اتنے غصے میں ہیں کہ کوئی بھی انہونی ہو سکتی ہے تو پھر ووٹرز لسٹوں کی تصدیق کا عمل ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے بعض شہروں میں ختم کردیا گیا ہے۔
لگتا ہے کہ ’’جیل سے اقتدار کی کہانی‘‘ تو اب پرانی ہو گئی مگر ’’اقتدار سے جیل‘‘ اب رواج پا جائے گا اور ہاتھوں کی لگائی ہوئی گانٹھیں اب دانتوں سے بھی نہیں کھلیں گی۔ کہتے ہیں کہ جس کی زبان چلتی ہے گویا اس کے دس ہاتھ چلتے ہیں یعنی زبانی جمع خرچ کرنے والا اس معاشرے میں دس ہاتھوں یعنی پانچ آدمیوں جتنی کارکردگی، زبانی جمع خرچ کی بنیاد پر دکھا سکتا ہے۔مگر عوامی غیض و غضب اب کئی ہاتھ چلا کر اس مقولے کو الٹانے کیلئے تیار ہے۔ میانوالی اور بہاولنگر میں عوامی نمائندوں اور افسران سے ابتر سلوک تو بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر دیکھ ہی لیا ہے۔ عوام اب کچھ سننے کیلئے تیار نہیں اور جلد یا بدیر عوامی ردعمل سب کو بہا لے جائے گا جو اس بات پر بغلیں بجاتے تھے کہ عوام کو جب چاہو دھوکہ دے لو اور جو یہ کہتے تھے کہ عوام اس خطے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ان پر بہت جلد سب کچھ آشکار ہو جائے گا۔