کراچی میں وزیراعلیٰ ہائوس کے سامنے متحدہ قومی موومنٹ کے دھرنے پر پولیس کی شیلنگ اور شدید لاٹھی چارج سے ایک شخص جاں بحق متعدد زخمی ہوگئے۔ ایم کیو ایم نے اس واقعہ کیخلاف بطور احتجاج یوم سیاہ اور دوبارہ دھرنے کا اعلان کر دیا۔ زخمی ہونیوالوں میں رکن سندھ اسمبلی صداقت حسین سمیت خاتون اور مقامی رہنماء حنیف سورتی بھی شامل تھے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماء خالد مقبول نے پولیس تشدد کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر ڈی آئی جی کو نہیں ہٹایا گیا اور گرفتار شدگان کو رہا نہ کیا گیا تو پھر وزیراعلیٰ ہائوس کا گھیرائو کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف پاکستان توڑنے والے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کو بچانے کی کوشش کرنیوالے ہیں۔ میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے کہتا ہوں کہ وہ غیرجانبدار ہو جائیں اور زرداری صاحب کو بھی یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ اگر وزیراعلیٰ کو لگام نہ دی گئی تو بلاول ہائوس بھی اسی شہر میں ہے۔ دہشت گرد پولیس کی ایماء پر شہر کی مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں پر ڈنڈے برساتے رہے اور یہ سب کچھ غیرمقامی پولیس نے کیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے کہا کہ ہم پرامن احتجاج کر رہے تھے۔لیکن وارننگ کے بغیربدترین شیلنگ اور لاٹھی چارج کر دیا گیا۔ وفاقی وزیر علی زیدی نے کہا کہ سندھ میں جنگل کا قانون ہے۔ جمہوریت کے لبادے میں پیپلزپارٹی کا آمرانہ طرز حکومت قابل مذمت ہے۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر اسدعمر نے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے کراچی میں ایم کیو ایم کے احتجاج پر تشدد قابل مذمت ہے۔ دستور پاکستان شہریوں کو پرامن احتجاج کا حق دیتا ہے۔ طاقت کے استعمال کے ذریعے اختلاف کو غصب کرنے کی روایت شرمناک ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنوں کی ریلی پر چیف سیکرٹری سندھ اور آئی جی سندھ سے سندھ پولیس کے لاٹھی چارج کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
دوسری طرف وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کسی احتجاج کیخلاف نہیں‘ پی ایس ایل سیزن شروع ہو گیا ہے۔ انہوں نے اچانک مظاہرہ شروع کر دیا اور ریڈزون پہنچ گئے۔ پولیس نے مظاہرین سے مذاکرات کئے اور انہیں جانے کیلئے کہا لیکن وہ نہیں مانے۔ صورتحال ایسی ہو گئی کہ پولیس کو ایکشن لینا پڑا۔
کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے احتجاجی دھرنے کے شرکاء پر سندھ پولیس نے جس بہیمانہ انداز میں تشدد کیا‘ اسکی جس قدر بھی مذمت کی جائے‘ کم ہے۔ پاکستان میں ایک منتخب جمہوری حکومت قائم ہے۔ جمہوریت میں حزب اختلاف سے وابستہ سیاسی جماعتوں‘ سماجی تنظیموں اور محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کااپنے مسائل کے حل اور حقوق کی بازیابی کیلئے پرامن احتجاجی مظاہرے کرنا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ اس حق کے حصول اور اپنے جائز مطالبات منوانے کیلئے وہ جلسے کر سکتے ہیں‘ مظاہرے کر سکتے ہیں‘ جلوس نکال سکتے ہیں اور دھرنے دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ تمام انداز آئین اور قانون کے دائرے میں ہی ہونے چاہئیں۔ کسی فرد‘ جماعت یا گروہ کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں نے مبینہ طور پر ریڈزون کراس کیا اور پولیس کی اپیل اور وارننگ کے باوجود وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوئے‘ دھرنے کی جگہ کے قریب ہی مقامی ہوٹل میں پاکستان سپر لیگ کے کھلاڑی قیام پذیر تھے۔ ایم کیو ایم کے ریڈزون عبور کرنے کے باعث پولیس کو ایکشن لینا پڑا ۔بلاشبہ اس صورتحال میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم سے پہلے جماعت اسلامی کی طرف سے بھی بلدیاتی ایکٹ کیخلاف دھرنا دیکر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ دھرنا گزشتہ تین ہفتے سے جاری ہے لیکن یہ شاید جماعت اسلامی کے ڈسپلن کا تقاضا تھا یا انکے منظم احتجاج کا کمال کہ کئی روز سے جاری اس احتجاجی مظاہرے میں شامل لوگوں پر نہ تو پولیس نے لاٹھی چارج کیااور نہ ہی انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر‘ بین الاقوامی ہوائی اڈہ و بندرگاہ اور ملک کا معاشی حب ہے۔ قومی ریونیو کا ایک معتدبہ حصہ کراچی سے حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس اعتبار سے کراچی کی فضا کا پرامن اور پرسکون ہونا ایک قومی ضرورت ہے۔ یہ شہر کسی بھی قسم کے انتشار اور بدامنی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ شہر کئی برسوں سے ملک دشمن شرپسند عناصر کے نشانے پر رہا ہے۔ یہاں پر متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی بھی اہم سیاسی جماعت کے طور پر اپنا وجود رکھتی ہے۔ یہاں جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی اور حاجی نعمت اللہ میئررہے ہیں۔ دونوں کے ادوار میں کراچی میں مثالی ترقیاتی کام ہوئے‘ امن و امان کی صورتحال قابل رشک رہی لیکن ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے ادوار میں کراچی بدترین دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ قتل و غارت‘ لوٹ مار‘ ڈاکہ زنی اور بھتہ خوری یہاں پر اس قدر عام ہوئی کہ برسوں سے مقیم یہاں کے شہریوں کو مجبوراً نقل مکانی کرنا پڑی۔ ان حالات میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے کراچی میں فوجی اپریشن کرنا پڑا اور تب کہیں جا کر اس شہر میں بہتری کی صورت پیدا ہوئی۔ اس وقت صوبہ سندھ کی حکمران جماعت پیپلزپارٹی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوں تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان مخاصمت کی فضا قائم ہے ۔ ان جماعتوں میں باہمی اعتماد کا فقدان ہونے کی وجہ سے اہم قومی ایشوز پر ہم آہنگی اور یکجہتی دیکھنے میں نہیں آرہی۔صورتحال یہ ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے قبل بلدیاتی ایکٹ 2021ء لے کر آئی ہے جس پر جماعت اسلامی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو تحفظات ہیں اور وہ اسکی واپسی یا اس میں ضروری ترامیم کا مطالبہ کررہی ہیں۔ جماعت اسلامی کے احتجاجی مظاہرے میں ابھی تک تشدد کا عنصر شامل نہیں ہو سکا لیکن ایم کیو ایم کے بدھ کے روز ہونیوالے احتجاجی مظاہرے اور ریلی میں شرکاء کی طرف سے مبینہ طور پر قانون کو ہاتھ میں لینے کی بناء پر پولیس کو ایکشن لینا پڑا جس کے نتیجے میں ایک قیمتی جان ضائع ہو گئی۔ اس وقت جبکہ پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) کا سیزن شروع ہو چکا ہے‘ کراچی کے شہریوں کو بین الاقوامی معیار کی حامل کرکٹ دیکھنے کا موقع میسر آیا ہے ، کراچی میں امن و امان کی صورتحال کا یوں اچانک ابتر ہو جانا انتہائی تشویشناک ہے۔ سنجیدہ فکرسیاسی حلقے اس میں کسی منصوبہ بندی اور سوچی سمجھی سازش کے تانے بانے تلاش کر رہے ہیں۔ خصوصاً ان حالات میں کہ جب پاکستان تحریک انصاف اپنی عوام دشمن پالیسیوں اور بری حکمرانی کی وجہ سے بدانتظامی اور عوامی غیض و غضب کا شکار ہے۔ اس تاثر کو مزید تقویت ملتی ہے کہ کہیں کراچی میں انتشار و بدامنی وفاقی حکومت کے مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے تو پیدا نہیں کی گئی۔ بہرحال حقیقت کچھ بھی ہو‘ وقت کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین سیاسی بصیرت اور تدبر و حکمت سے کام لیتے ہوئے حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کیلئے فی الفور اقدامات کریں۔ الجھے ہوئے معاملات کو بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کریں۔اس حوالے سے سندھ حکومت پر دوسری جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات کو قابو سے باہر نہ ہونے دے اور اس مقصد کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے کیونکہ موجودہ حالات میں پاکستان کسی سانحہ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔