بحرانوں میں گھرے پاکستان میں انتخابی دنگل

Jan 28, 2023

چودھری ریاض مسعود


اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین‘ معاشی‘ مالیاتی‘ سماجی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔اللہ نہ کرے ملک کے دیوالیہ ہونے کی افواہیں بھی زوروں پر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ”عالمی مہاجن“ مونگ پھلی کے دانے کے برابر مالی امداد یعنی قرضے دینے کیلئے پاکستان پر مسلسل دباﺅ بڑھا رہے ہیں کہ عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالا جائے اور پٹرول‘ بجلی‘ گیس کی حالیہ قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔ قارئین کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ ہم جس غیرملکی قرضے کے حصول کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہے ہیں‘ وہ سمندر پار پاکستانیوں کی ماہانہ ارسال کردہ ترسیلات زر اڑھائی ارب ڈالر سے بھی کہیں کم ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم اپنے محب وطن پاکستانیوں کا اعتماد بحال کرکے اور انکے مسائل و مطالبات کو حل کرکے عالمی مالیاتی اداروں کے چنگل سے نکل سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ سیاسی مفادات اور اقتدار کی جنگ میں مصروف ہمارے سیاستدان قومی مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنی ضد ‘ انا‘ ہٹ دھرمی اور ذاتی مفادات کوکب چھوڑیں گے؟ قرضوں میں دبے ہوئے پاکستان میں پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیوں کو توڑ کر ہمارے سیاستدانوں نے اپنی سیاسی جنگ کو بڑھا دیا ہے جس سے سیاسی ماحول خراب بھی ہوا ہے اور سیاسی عدم استحکام کو بھی بڑھاوا ملاہے۔ مالی بحران میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کواب ان قبل از وقت انتخابات پر اربوں روپے کا قومی سرمایہ خرچ کرنا پڑیگا جس سے یقینا موجودہ مالی بحران میں بے پناہ اضافہ ہو جائیگا۔ کیا موجودہ مالی بحران میں ہم ان قبل از وقت انتخابات پر اٹھنے والے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں آنےوالے ہر بحران کی ذمہ داری انہی سیاستدانوں کے سر ہے جنہیں ملک و قوم کا قطعاً احساس نہیں ہے۔ سیاسی جنگ کے اس ماحول میں اب پنجاب اور کے پی کے میں نگران وزرائے اعلیٰ اور کابینہ کے تقرر کے بعد انتخابی کشتی سیاسی سمندر میں اترنے والی ہے اور یہ فرض دونوں صوبوں کی نگران حکومتوں نے ”100فیصد غیر جانبدار“ رہ کردار کرنا ہے اور کسی کو بھی یہ موقع نہیں دینا کہ وہ ”سیاسی پنکچر“ کا ڈائیلاگ بول سکے۔ 90 دن کی نگران حکومتوں کو آزادانہ‘ غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے ہرممکن اقدامات کرنا ہونگے۔ انہیںتمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک جامع اور قابل عمل ضابطہ اخلاق مرتب کرنا چاہئے اور پھر اسکی کڑی نگرانی کرنی چاہئے کہ کوئی اسے روند نہ سکے۔ سول انتظامیہ خاص کر پولیس کوسخت احکامات جاری کئے جائیں کہ وہ اس سیاسی اور انتخابی عمل میں مکمل طورپر غیرجانبدار رہ کر اپنی قانونی و انتظامی ذمہ داریاں ادا کریں۔ نگران اپنی 90 دن کی مختصر سی مدت کے دوران قومی خزانے کا استعمال کفایت شعاری کیساتھ کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ دونوں صوبوں میں انتخابات تو الیکشن کمشن نے ہی کروانے ہیں‘ لیکن نگران حکومتوں نے انہیں ہر طرح کی قانونی‘ اخلاقی‘ انتظامی معاونت اور مثالی امن و امان قائم کرکے دینا ہے۔ پولنگ سٹیشنوں کا قیام‘ عملے کی فراہمی‘ انتخابی عملے کیلئے ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولتوںکی فراہمی کیلئے انتظامات‘ پولنگ سٹیشنوں پر امن و امان کو یقینی بنانا اور سب سے بڑھ کر انتخابی عملے کی تربیت جیسی ذمہ داریاں وقت سے پہلے ہی الیکشن کمشن کی مدد اور مشاورت سے مکمل کر لی جائیں۔ ہمارے ہاں انتخابات کے موقع پر ایک بات نوٹ کی گئی ہے کہ ریٹرننگ افسروں اور انتخابی عملے کا تقرر کرنے میں غیرمعمولی تاخیر کر دی جاتی ہے۔ یہی صورتحال پولنگ سٹیشنوں کے قیام کے سلسلے میں ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن کمشن اور نگران حکومتیں ان ابتدائی اور انتہائی ضروری مراحل کو جلد از جلد مکمل کرے۔ ایک اور اہم بات کہ 90 دن کی نگران حکومت سول انتظامیہ اور پولیس میں تبادلوں کے جھکڑ نہ چلائے۔ اس سئے انتظامی اور مالیاتی طورپر صوبے متاثر ہوتے ہیں۔ اگر کوئی نہایت ضروری تبادلے کرنے درکار ہوںتو وہ مرحلہ‘ انتخابات کے اعلان کا شیڈول جاری ہونے سے پہلے ہی کر لیا جائے۔ یہ بات بھی اہم ہے ہم اپنے سرکاری قواعدوضوابط اور قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرکے انہی گورنمنٹ سرونٹس سے بہتر کام لے سکتے ہیں۔ دونوں صوبوں کی نگران حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں اور امیدواروں سے قریبی رابطے رکھے اور انتخابی عمل کو پرامن‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ بنانے کیلئے مشاورت کرتے رہیں۔ عوام میں اپنے جمہوری حق ”ووٹ“ کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کیلئے پرنٹ‘ الیکٹرونک میڈیا اور خاص طورپر سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جائے۔ انتخابی مہم یعنی جلسے‘ جلوس‘ ریلیاں کی کڑی نگرانی کی جائے۔ انتخابی ضابطہ اخلاق اور قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے اور خلاف ورزی کرنےوالوں کیلئے ”نوٹالرنس“ کی پالیسی اپنائی جائے۔ ”اقتدار کی نازک دیوی“ نگران حکومت کی صرف90 دن بلکہ اس سے بھی کم دنوںکی مہمان ہے اور یہ محدود دن اس قوم کی امانت بھی ہیں کہ انہوں نے آزادانہ‘ غیرجانبدارانہ اور شفاف انتخابات کو ہر صورت میں یقینی بنانا ہے۔ الیکشن کمشن اور نگران حکومتیں یہ بات یاد رکھیں کہ ان دو صوبوں میں قبل از وقت انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ پہلے ہمیشہ قومی اسمبلی کے انتخابات ہوتے تھے اور پھر صوبائی اسمبلیوں کے‘ اب معاملہ ذرا الٹ بھی ہے‘ پیچیدہ بھی اور نازک بھی کیونکہ ملک میں سیاسی جماعتوں کے درمیان سخت ترین کشیدگی پائی جاتی ہے۔ الزامات کی سیاست عروج پر ہے۔ میڈیا خاص طورپر سوشل میڈیا مکمل طورپر چوکنا اور بیدار ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے سوشل میڈیا سیل ،دوسرے سیاست دانوں کے آگ برساتے بیانات اور پھر معاشی بحرانوں کی وجہ سے دونوں صوبوں میں ہونےوالے انتخابات کوئی ”نیا چن“ بھی چڑھا سکتے ہیں۔ لہٰذا نگران حکومتیں اس انتہائی مشکل‘ لیکن ممکن ٹارگٹ کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے پرامن‘ منضفانہ‘ آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نہ صرف کامیاب و شاندار تاریخ مرتب کر سکتی ہیں بلکہ ”سیاسی پنکچر اور دھاندلی “ کے الزامات سے بھی اپنا دامن بچا سکتی ہیں۔ یقینا قوم نگرانوں سے اعلیٰ کارکردگی کی ہی امیدرکھتی ہے۔

مزیدخبریں