خالد بہزاد ہاشمی
آپ کے 811 ویں سالانہ عرس مبارک کی تقریبات اجمیرشریف میں عروج پر پہنچ گئیں
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءآپکی تربیت اور سلسلے کی زندہ جاوید کرامات
ہمارے سلسلے کا یہ اصول ہے کہ مسلمان اور ہندو دونوں سے صلح رکھنی چاہئے: فرمان خواجہ غریب نواز
بیس سال آپ کی خدمت میں رہا اور کسی حاجت مند کو خالی ہاتھ جانے نہیں دیا: حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی
پرتھوی راج چوہان کو نجومیوں نے بارہ سال قبل اس کے بیٹے کی حکومت کے خاتمہ کی پیشن گوئی کی تھی
آپ کی ہندوستان آمد ایک زبردست روحانی اور سماجی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی
ظلمت کدہ ہند میں لاکھوں غیر مسلموں نے آپ کے دست حق پر اسلام قبول کیا
لاہور میں حضرت داتا گنج بخش کی درگاہ مبارک پر چلہ کشی فرمائی اور مشہور زمانہ شعر کہا
....................
خواجہ خواجگان، خواجہ بزرگ، ہندالولی، نائب رسول اللہ فی الہند، سلطان الہند، خواجہ غریب نواز، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے 811 ویں سالانہ 6 روزہ عرس مبارک کی تقریبات اجمیرشریف (بھارت) میں نہایت تزک و احتشام سے شروع ہو چکی ہیں۔ اجمیر شریف کے درودیوار کوچہ و بازار ”خواجہ میرے خواجہ دل میں سما جا“ کی پکار سے گونج رہے ہیں عقیدت مندوں کے ہاتھوں میں لاکھوں جھنڈے ہیں جبکہ شہر کی فضائیں سینکڑوں من پھولوں کی مہک اور کیسری رنگ سے دمک رہی ہیں۔ درویش اور ملنگ ہزاروں میل کا پیدل سفر طے کر کے ہاتھوں میں جھنڈے اٹھائے اجمیرشریف پہنچ چکے ہیں ان کے سفر کی مسافت کا سن کر ہی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ بنگال، پٹنہ، بہار، آسام، دکن، دہلی، کلیر شریف سے ہوتے ہوئے پا پیادہ یہاں پہنچتے ہیں کئی عقیدت مند اپنی معمر ماں یا باپ کو سائیکل پر بٹھا کر سینکڑوں میل دور سے یہاں آئے ہیں۔ اجمیر شریف ہندو اکثریت کا شہر ہے اور یہاں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم حضرت خواجہ غریب نواز سے محبت میں آگے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ وہ دکانوں کی چابیاں آپکے در اقدس سے چھونے کے بعد کاروبار کھولتے ہیں جبکہ پاکستانی زائرین کا وفد بھی پہنچ چکا ہے جنکی دیوان سید زین العابدین نے دستار بندی کی۔ درگاہ حضرت خواجہ غریب نواز کے سجادہ نشین دیوان سید زین العابدین کے صاحبزادے زیب سجادہ صاحبزادہ سید نصیرالدین چشتی نے نوائے وقت کو فون پر بتایا کہ تقریبات کا آغاز چاند نظر آتے ہی 6 رجب تک جاری رہتا ہے جبکہ بلند دروازہ پر تاریخی جھنڈا لہرا کر تقریبات کا آغاز ہوا جوگوری پریوار انجام دیتا ہے۔ بلند دروازے پر جھنڈا لہرانے کی رسم کا آغاز ستار شاہ نے 128 سال قبل کیا تھا پورے ہندوستان آسام، بنگال، بہار وغیرہ سے ملنگ، درویش اور زائرین چھڑیاں اور جھنڈے لے کر بذریعہ دہلی اجمیرشریف پہنچتے ہیں۔ دہلی (مہرولی) میں وہ حضرت خواجہ غریب نواز کے محبوب خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاءکی بارگاہ میں رجسٹر پر حاضری لگوا کر یہاں حاضری دیتے ہیں۔ دیوان سید زین العابدین مزار مبارک کو غسل دیتے ہیں اور چھٹی شریف تک یہ غسل اور محافل مبارک روزانہ جاری رہتی ہیں۔ 5 رجب کو دیوان صاحب کی صدارت میں مخصوص قدیمی محفل منعقد ہوتی ہے۔ جس میں سجادگان شرکت کرتے اور چھٹی کے روز سوا ایک بجے قُل شریف ہوگا مخصوص دعا، دیوان صاحب کی دستار بندی کے علاوہ خانقاہ کے سجاد گان کی دستار بندی کریں گے۔ صاحبزادہ سید نصیرالدین چشتی نے بتایا کہ کرونا کے بعد یہ تیسرا عرس ہے جس میں روزانہ کئی لاکھ افراد شرکت کر رہے ہیں اس مرتبہ ہندوستانی حکومت درگاہ کمیٹی اجمیر کے ڈسٹرکٹ کلکٹر، ایس پی نے بہت عمدہ انتظامات کیے ہیں اور موسم سرما کی شدت کے پیش نظر سفری اور رہائشی سہولیات کا انتظام کیا ہے۔ بھارتی حکومت نے درگاہ کے نزدیک وشرام، ستلی (سرائے) بنائی ہے جس میں ایک سے ڈیڑھ لاکھ زائرین قیام کر رہے ہیں۔ ان کے لئے گرم پانی کا بھی بندوبست ہے جبکہ درگاہ تک آنے لے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی مہیا کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ حضرت خواجہ غریب نواز کا عرس مبارک ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ہوتا ہے جس میں 12 لاکھ سے 15 لاکھ افراد شرکت کرتے ہیں۔ 240 پاکستانی زائرین کا وفد تقریبات میں شرکت کر رہا ہے جبکہ 488 زائرین نے بھارتی ہائی کمشن میں ویزے جمع کرائے تھے۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا ہندوستان کو اپنے قدموں سے رونق بخشنا پورے ہند کے لئے ایک زبردست روحانی اور سماجی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور تاریخ عالم انگشت بداں ہے کہ ہند میں سب سے بڑا سماجی انقلاب برپا کرنے والا یہ درویش ایک چھوٹی سی جھونپڑی اور کُٹیا میں پھٹے ہوئے ملبوسات میں بیٹھا ہے اور فقر کا یہ عالم ہے کہ افطار میں کبھی روٹی بھی میسر نہ آتی۔ آپ نے اجمیر شریف میں جس سلسلہ¿ چشتیہ کا اجراءکیا۔ دہلی میں اس کا مرکز آپ کے محبوب خلیفہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی شبانہ روز کاوشوں سے قائم ہوا جبکہ حضرت قطب صاحب کے خلیفہ حضرت شیخ العالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے اسے اجودھن (پاکپتن شریف) میں فروغ دیکر اس خطے کی کایا پلٹ دی اور پھر حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے لاڈلے خلیفہ حضرت محبوب الٰہی خواجہ نظام الدین اولیاءنے دہلی میں سلسلہ¿ چشتیہ کے پیغام کو سب سے زیادہ بامِ عروج تک پہنچایا جبکہ حضرت بابا فرید گنج شکر کے بھانجے،داماد اور خلیفہ حضرت مخدوم صابر نے کلیرشریف کے ظلمت کدہ میں اس آفاقی پیغام کی ایسی جوت جگائی جو ایک مثال بن گئی۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے انسانیت، بھائی چارے، رواداری کا پیغام دیا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے سلسلہ کا یہ اصول ہے کہ مسلمان اور ہندو دونوں سے صلح رکھنی چاہئے پھر ہم یہ حدیثِ پاک کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ:
اے خدا کے بندو ! آپس میں بھائی بھائی بن جا¶۔
(بخاری شریف)
جب اللہ کے پیارے نبی نے حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو تبلیغ کے لئے یمن روانہ کیا تو یہ ہدایت فرمائی کہ دین کو آسان کر کے پیش کرنا، سخت بنا کر نہیں، لوگوں کو خوشخبری سنانا، نفرت نہ دلانا اور باہم ہمیشہ موافق رہنا۔ اختلاف نہ کرنا تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری اور ان کے تینوں خلفاءکرام حضرت بابا قطب الدین بختیار کاکی، حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءنے اسی فرمان اور ہدایت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور اپنے حُسنِ سلوک سے لاکھوں غیر مسلموں کے دل جیت لئے اور آج بھی کروڑوں دلوں پر حکومت کر رہے ہیں۔
خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری‘ اجمیری اصفہان کے علاقے سنجر میں حضرت خواجہ غیاث الدین حسن کے ہاں مارچ 1139ءمیں پیدا ہوئے۔ وہ تاتاریوں کی یورش کا دور تھا جبکہ فرقہ باطنیہ اور ملحدین کی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں اور آپ کا سلسلہ چند واسطوں سے حضرت علیؓ سے جا ملتا ہے۔ آپ علم و عرفان کا سمندر اور روحانی پیشواﺅں کی کہکشاں کا روشن ستارہ ہیں جو لاہور سے 565 کلومیٹراور دہلی سے 391 کلومیٹر دور اجمیر شریف میں آسودہ خواب ہیں۔ آپ پندرہ سال کی عمر میں یتیم ہوگئے تھے اور ایک سال بعد آپ کی والدہ محترمہ الورع بھی وصال فرما گئیں۔ آپ رشتہ میں پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی کے بھانجے تھے جبکہ آپ نے خرقہ خلافت حضرت عثمان ہارونی سے حاصل کیا اور بیس سال انکی خدمت میں رہے۔ حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی حضرت ابراہیم قندوزی، حضرت شیخ ابو سعید تبریزی شیخ نجم الدین‘ حضرت شیخ عثمانی ہارونی، شیخ شہاب الدین سہروردی، خواجہ اجمل شیرازی، شیخ سیف الدین باخرزی، شیخ جلال، محمد واحد چشتی اور دیگر سے بھی فیض پایا۔ آپ نے چشتیہ سلسلہ کو برصغیر میں فروغ اور دوام بخشا اور آپ کی دینی اور روحانی کاوشوں کے سبب یہ آج ایک عالم میں پھیلا ہوا ہے۔ آپکے حسن اخلاق اور اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر لاکھوں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ جب ایک مرتبہ دہلی سے اجمیر واپس آئے تو یہ سفر چھ ماہ میں کیا اور اس دوران راستے میں نوے سے ایک لاکھ افراد نے اسلام قبول کیا۔ آپ کے روحانی سلسلہ کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی، حضرت شیخ العالم بابا فرید گنج شکر اور حضرت نظام الدین اولیاءنے آگے بڑھایا اور اسے اوج کمال تک پہنچایا۔ آپ نے عراق‘ ہمدان‘ تبریز‘ استرآباد‘ سبزوار‘ بلخ‘ ملتان اور دیگر کئی شہروں میں قیام فرمایا۔ آپ لاہور تشریف لائے تو حضرت علی ہجویری کے مزار پر چلہ کیا اور وقتِ رخصت وہ مشہور عالم شعرا ارشاد فرمایا جوآج بھی زبان زدِ عام ہے۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں راہ پیر کامل‘ کاملاں را رہنما
حضرت خواجہ غریب نواز 583ءمیں مکہ اور مدینہ تشریف لے گئے تھے۔ جہا ں وہ خانہ کعبہ میں یاد الٰہی میں مصروف رہتے۔ ایک روز غیب سے ندا آئی ”اے معین الدین ہم تجھ سے خوش ہیں‘ تجھے بخش دیا‘ جو کچھ چاہے مانگ تاکہ عطا کریں۔“ حضرت خواجہ غریب نواز نے اپنا سر سجدے میں رکھ کر عاجزی سے التماس کی ”کہ مالک کون و مکان معین الدین کے مریدوں کے سلسلہ کو بخش دے“ یہ التماس سُن کر غیب سے دوبارہ صدا آئی کہ اے معین الدین تو ہماری ملک ہے‘ جو تیرے مرید اور تیرے سلسلہ میں تاقیامت مرید ہونگے انہیں بخش دوں گا“ جب آپ مدینہ منورہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضرت عثمان ہاروئی جو اس موقع پر آپ کے ہمراہ تھے‘ نے کہا کہ آقائے دوجہاں کے حضور سلام پیش کرو۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے باآواز بلند السلام علیکم یا سیدالمرسلین کہا تو اس موقع پر موجود سب لوگوں نے سنا کہ ”وعلیکم السلام یا سلطان الہند“
آپ کے خلیفہ اکبر حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی نے آپ کی مجالس کا احوال اور آپکے مبارک ارشادات ”دلیل العارفین“ کے نام سے قلمبند کئے تھے جو آج بھی بھٹکے ہوئے کیلئے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں بیس سال حضرت خواجہ نوازکی خدمت میں رہا اور میں نے اس دوران کبھی کسی حاجت مند کو خالی ہاتھ واپس نہیں جاتے دیکھا جب بھی کوئی شخص مانگنے کےلئے آتا حضرت خواجہ غریب نواز مصلے کے نیچے ہاتھ ڈال کر جو اس کی قسمت میں ہوتا اسے ضرور مرحمت فرماتے۔“ تصوف پر آپ کی کتب کشف الاسرار (معراج الانوار) کنجل اسرار (گنج الاسرار) حدیث المعارف اور دیگر شامل ہیں جبکہ آپ خوش گو قادرالکلام شاعر بھی تھے آپ کا فا رسی شعری مجموعی ”دیوان معین“ کے نام سے مقبول ہے آپ رسالہ تصوف کے بھی مصنف ہیں۔
حضرت شیخ العالم بابا فریدگنج شکر فرماتے ہیں۔
”ایک مرتبہ کچھ عرصہ تک خواجہ معین الدین سنجری قدس سرہ کے روضہ میں معتکف رہا۔ عرفہ کی ایک رات روضہ متبرک کے نزدیک نماز ادا کی اور وہیں کلام اللہ شریف پڑھنے میں مشغول ہوگیا‘ تھوڑی رات گزری تھی کہ میں نے پندرہ سپارے ختم کر لئے۔ سورہ کہف یا سورہ مریم میں ایک حرف مجھ سے ترک ہو گیا۔ حضرت مخدوم کے روضہ سے آواز آئی‘ کہ یہ حرف چھوڑ گئے اسے پڑھو‘ دوبارہ آواز آئی عمدہ پڑھتا ہے۔ خلف الرشید ایسا ہی کیا کرت ہیں۔“ جب میں قرآن پڑھ چکا تو حضرت خواجہ غریب نواز کے پائنتی پر سر رکھ دیا اور رو کر مناجات کی کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کس گروہ میں سے ہوں‘ یہی فکر تھی کہ روضہ اطہر میں سے آواز آئی کہ مولانا! جو شخص یہ نماز ادا کرتا ہے وہ بخشے ہوﺅں میں سے ہے۔“
حضرت خواجہ حسن ثانی نظامی دہلوی مرحوم سجادہ نشین درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءحضرت خواجہ اجمیری کے گاﺅں چشت کے بارے میں لکھتے ہیں! یہ افغانستان اور روس کے درمیان ویران علاقے میں آباد ہرات سے آگے ایک اچھوتے گاﺅں کا نام ہے‘ مجھے وہاں جانے کا موقع تو نہیں ملا‘ لیکن پچھلے پچاس سال میں لوگ چشت گئے ہیں‘ ان سے ملا ہوں اور اس عجیب و غریب گاﺅں کے حالات سنے ہیں‘ مثلاً یہ کہ وہاں نئے زمانے کی روشنی نام کو بھی نہیں پہنچی ہے چاروں طرف کئی کئی کلو میٹر تک کوئی آبادی نہیں ہے دور کی آبادیوں میں جانے کیلئے گھوڑے‘ اونٹ اور پیدل کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ جانے والوں نے بطور خاص جو بات نوٹ کی وہ یہ ہے کہ گاﺅں کا رہنے والا ہر عورت‘ مرد حافظ قرآن ہے اور کھیتوں اور باغوں میں کام کرتے وقت بلندآواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرتا رہتا ہے۔ سب آسان سادہ سخت محنت و مشقت کی زندگی بسر کرتے ہیں اسی لئے عام طور پر کوئی بیمار نہیں پڑتا۔ حکیم ڈاکٹر بھی کوئی چیز شاید کسی کو معلوم نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے گاﺅں میں دور سے آنے و الا ہر شخص بھوکا بھی ہوگا اور پیاسا بھی۔ اس لئے نئے زمانے میں کوئی بھولا بھٹکا آ نکلتا ہے تو اسکی خوب خاطر مدارت ہوتی ہے اور مہمان کو ایک نعمت سمجھا جاتا ہے۔“
آپ نے نصف صدی تک اجمیر شریف میں قیام کے دوران اپنی دینی اور روحانی سرگرمیوں سے پورے برصغیر کو مستفید کیا۔ اس زمانے میں اجمیر پر پرتھوی راج چوہان کی حکومت تھی۔ پرتھوی راج چوہان کی ماں کو نجومیوں نے بارہ سال قبل ہی آپ کی اجمیر آمد اور پرتھوی کی حکومت کے خاتمہ کی پیشن گوئی کی تھی جب پرتھوی نے آپکو آزار پہنچانا شروع کیا توآپ نے اسے سلطان شہاب الدین غوری کے ہاتھوں زندہ پکڑ کر دینے کا مشہور عام جملہ ارشاد فرمایا تھا چنانچہ 1193ءمیں ترائین کے میدان میں وہ سلطان شہاب الدین غوری کے ہاتھوں عبرتناک شکست اور گرفتاری کے بعد موت سے ہمکنار ہوا۔ سلطان التمش آپ کے قدموں میں بیٹھنا اپنے لئے اعزاز سمجھتا تھا۔ آپ ایک کسان کو اسکا حق دلانے کیلئے ایک مرتبہ اس کے دربار میں بھی تشریف لے گئے تھے۔ 6 رجب دوشنبہ 632ھ کو بعد نماز عشاءآپ نے حجرے کا د روازہ بند کرلیا اور خادموں کو دروازہ نہ کھٹکانے کی تاکید کی۔ اس دوران اندر سے گریہ و زاری اور مناجات کی آوازیں آتی رہیں۔ چھٹے روز یہ آوازیں بند ہوگئیں چنانچہ چھٹے روز بعد نماز فجر دستک کے بعد دروازہ توڑا گیا تو آپ دنیا سے پردہ فرما چکے تھے اور آپ کے پُرسکون چہرے پر روحانی تبسم اور آپ کی پیشانی پر بخط نور تحریر تھا۔
ہذا حبیب اللہ مات فی حبیب اللہ
(یہ اللہ کا حبیب ہے اور اللہ کی محبت میں جاں بحق ہوا)
اس وقت آپ کی عمر مبارک 96 سال تھی چونکہ آپ چھ یوم تک حجرہ میں بند رہے تھے اسلئے6 رجب کو آپ کی چھٹی مبارک منائی جاتی ہے۔ آپ کو آپکے حجرے میں ہی دفن کیا گیا۔ آپ کے مزار مبارک کی بنیاد تین صدیوں بعد خواجہ حسن ناگوری نے رکھی تھی جبکہ اسے شیر شاہ سوری نے تعمیر کرایا۔ یہاں تمام مغل بادشاہ اکبر‘ جہانگیر‘ شاہ جہاں‘ اورنگزیب عالمگیر‘ شہزادہ دار الشکوہ قادری‘ شہزادی جہاں آراءاور دیگر پاپیادہ حاضری دیتے رہے اور مختلف مساجد‘ دالان اور عمارت تعمیر کرائیں۔ بہادر شاہ ظفر‘ علامہ محمد اقبال‘ داغ دہلوی اور دیگر تمام بڑے شعراءآپ کی شان میں قصیدہ خواں نظر آتے ہیں۔
٭٭٭٭٭