اصلاح احوال…محمد احسان رمضان
: ehsanramzan786@gmail.com
اٹھارویں صدی کے آخر میں جب تاج برطانیہ نے اپنی ایک کالونی کے شہریوں پر محض اس وجہ سے ٹیکسز لگانا شروع کیے کے حکومت انکے دفاع و دیگر اخراجات اٹھا رہی تھی تو شہریوں کے دلوں پر یہ بات بہت گراں گزری۔ حکومت کا یہ اقدام قابل اعتراض و مذمّت ضرور تھا مگر میرے کوچہ خموشاں کو دیکھئے تو اتنا عجب نہ تھا کے احتجاج ایک بغاوت کی شکل اختیار کر جاتا اور بات یہاں تک پھنچ جاتی کے ایسا آزاد و خود مختار ترین ملک معرض وجود میں آتا کے آئندہ آنے والی صدیوں تک پوری دنیا پر اسکی حکومت رہتی۔ اگلی ڈیڑھ صدی میں آزاد ہونے والے میرے اور آپ کے ملک میں تجارت کے غرض سے آنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی جب چین کی چائے کی پتی لے کر بوسٹن پہنچی تو ایک ایسے انقلاب کی چنگاری اٹھی کے یونائیٹڈ سٹیٹس آف امیریکا جیسا ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا جو دیکھتے دیکھتے اپنے آباء ملک سمیت پوری دنیا کے ممالک کے لیے ترقی و خوشحالی کی مثال بن گیا۔ یہ واضح طور پر ایک زندہ قوم کی جیت تھی اور اپنی آزادی،حقوق اور اقدار کا سودا نہ کرنے والی قوموں کو خدا ایسا ہی صلہ دیا کرتا ہے۔
یہ تو کہانی تھی اس قوم کی جسے ماڈرن ہسٹری میں جمہوری نظام کی خالق مانا جاتا ہے مگر میرے وطن عزیز میں رائج جمہوری نظام کو جہاں سے نقل کیا گیا وہاں کے قصے میرے عزیز ترین ہموطنوں کے لیے اَچَمبھے کی بات سے کم نہ ہونگے۔ ماضی قریب میں ایک نادان وزیر اعظم اس بات پر استیفہ دے گئے کے انسے کووِڈ پروٹوکولز پر پورا اترنے میں ذرا سی غفلت ہو گئی۔ اندازہ لگائیے کے اس قوم کے کیا اقدار ہیں کے اتنی سی بات پر ایک چیف ایگزیکٹو اپنی کرسی چھوڑ گیا، اللّہ معافی۔ اب مجبوراً ایک اور وزیراعظم کو انکی جگا لگانا پڑ گیا جو قریب چوالیس دن بعد وہی کرسی یہ کہہ کر چھوڑ گئیں کے مِنی بجٹ عوام کی مرضی کا نہیں دے سکیں۔ بھلا یہ کوئی مذاق ہے۔ جی نہیں، یہ زندہ قوموں کے اعلی اقدار اور سنجیدگی کی ایک عمدہ ترین مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کے اصولوں پر چلنے اور حق کی آواز بلند کرنے والی قومیں آج اپنے پیروں پر کھڑی ہیں اور میرا ملک ہر نئی صبح ایک نئی مصیبت سے دوچار نظر آتا ہے۔
پاکستان میں رائج جمہوری نظام کی اگر ایک مختصر جملے میں تعریف کی جائے تو وہ یقینن یہ ہوگا، "لْوٹو، بھاگو، پھر لوٹو اور لْوٹو"۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب کا موازنہ اگر ہمارے ملک کے حکمرانوں سے کیا جائے تو سیلاب تو کیا پاکستان میں آنے والی تمام قدرتی آفات بڑے مارجن سے ہار جائیں گی۔ خدانخواستہ رواں سال میں آنے والے سیلاب جیسا عذاب، ہر سال، پچاس برس تک لگاتار آتا رہے تو ملک کا اتنا نقصان نا ہو جتنا وطن عزیز کی تباہی میں ہماری "جمہوریت " اور ہمارے لیڈران کا کردار رہا ہے۔ معاشی و سیااسی فیبرک کے نقصان کا تو تخمینہ لگایا جا سکتا ہے اور شاید ریکوری بھی چند دہایوں میں ممکن ہو مگر ہماری اخلاقی اقدار کا جو جنازہ نکل چکا اور جن پستیوں میں ہم آئے دن دہنستے جا رہے ہیں اس کی اصلاح میں کئی صدیاں لگ جائیں یا پِھر خدا کے رحم کو جلال آئے اور کوئی ایسا سربراہ عنایت کردے جو ہمیں ان اندھیروں سے روشنی کی جانب دھکیل سکے۔ اسلام کینام پر بنی اس ریاست پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں ہمیں ایسے ایسے ہیرے حکمرانوں کے روپ میں نصیب ہوئے جنہوں نے ہمارے اقدار کو تار تار کردیا۔ اچھے برے کا معیار بَدَل دیا گیا ، صحیح اور غلط کو جانچنے اور قبول کرنے کے انداز بَدَل دیے گئے ، اور بات تو یہاں تک آن پنچی کے صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ہم اپنی تمام تر علمی صلاحیت بروئے کار لاتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اس تباہی اور پستی کا ذمہدار صرف اس نظام اور ان مقتدر افراد کو ٹھہرایا جائے تو یہ صریح جھوٹ ہوگا۔ کیونکے جیسی رعایا ویسے حکمران ہوا کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کے قوم کے بھیس میں اس ہجوم کا ہر فرد ملّت کے اس ہولناک مقدّر کا ستارا ہے۔آج بالعموم میری قوم کا ہر فرد اور خصوصاً مجھ سمیت وطن عزیز کا ہر جوان اندر سے مکمّل طور پر مردہ دکھاء دیتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کے میرا ملک آج ایک ایسی تصویر پیش کر رہا ہے جہاں اسمے بسنے والے ایسی چلتی پھرتی زندہ لاشوں کی ایک بھِیڑ ہیں جنھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کے انکے ملک، انکے مستقبل اور آنے والی نسلوں کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ گھروں کے ڈرائنگ رومز میں، چلتی گاڑیوں میں، چا? کے ڈھابوں پر، نائی کی دکان میں بیٹھے یا اپنی نجی محفلوں میں میرا نوجوان شعور کا چورن تو بیچ رہا ہے مگر کسی میں اتنی غیرت اور حمیت نہیں جاگتی کے عملی طور پر اپنے حقوق کی پامالی کا حساب مانگ سکے۔ آج ملک اس نہج پے کھڑا ہے کے اگر یہ حالات کسی زندہ قوم کو در پیش ہوتے تو گھر خالی اور سڑکیں آباد ہوتیں۔ اور ظلم کے خاتمے تک کوئی گھروں کو نہ لوٹتا۔ یہاں حال یہ ہے کے کھانے کو روٹی نہیں ہے، پینے کو پانی نہیں ہے، گیس کا تو نام نہ لیں، پیٹرول کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں مگر گھنٹوں لائن میں لگے رہنے کے بعد جب میری باری آتی ہے تو کانوں میں ایک آواز پڑتی ہے کہ ختم ہوگیا جی اور میں اپنا سا منہ لیے اگلے پمپ کی طرف روانہ ہوجاتا ہوں۔ بجلی سارا سارا دن نہ ہو تو میرے اطمنان کو ذرا برابر ٹھیس نہیں پھنچتی۔ صحت، تعلیم، معیشت جیسے مسائل سے میری قوم کا کوئی لینا دینا نہیں۔ کسی کی نوکری نہیں تو کوئی اس لیے کنوارہ پھر رہا ہے کے چار مہمانوں کو کھانا کھلانے کے پیسے نہیں۔ ملک میں لاقانونیت کا دور دورہ ہے، شہر کی گلیوں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک ڈاکو راج ہے مگر ہمارے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ اپنی اس کیفیت کو اگر بے ہسی یا مردہ ضمیری کہوں تو شاید یہ دونو الفاظ ہم سے منسوب ہونے کو اپنی توہین سمجھیں۔ یہ بات بھی اب ہم پر فرض ہو چکی کے ہم ستر سالہ تاریخ میں آئین کو پامال کرنے والوں کی حمایت اور دفاع کرنے پر نادم و شرمندہ ہوں اور ہمیں اس بات کا احساس اور پچھتاوا ہو کے ہم غلط سائیڈ پر کھڑے تھے۔ تا کہ آئندہ ہم کسی سیاسی لیڈر یا کسی ادارے کے سربراہ کو اسکی اجازت نہ دیں۔ اب بہت ہو چکا، پانی سر سے گزر چکا۔ اگر اب بھی ہمیں ہوش نہ آیا تو خدا نہ کرے مزید تباہی کے سوا کچھ نظر میں نہیں آتا۔ جب بار بار کی یقین دہانیوں کے بعد، جمہوریت کے فروغ کے وعدوں کے بعد، حکومتی معاملات سے مکمل علیحدگی کے عزم کے بعد بھی ایک سابق وزیر اعظم کو الیکشن کی بھیک مانگنے ایک ادارے کے سربراہ سے ملنا پڑے تو یہ امر نہ تو میرے بہادر مصلح افواج کے جوانوں کے لیے بہتر ہے نہ انکے لیے جنکے دفاع کا انہوں نے ذمہ لے رکھا ہے۔ یہ ملک خدا کے بعد اگر کسی طاقت کی وجہ سے قائم ہے تو وہ اس ملک کی افواج ہیں۔ انھیں اس کھیل میں گھسیٹنے اور دھکیلنے والوں کو کوئی معافی نہیں ملنی چاہئیے۔دوسری طرف آج بھی میرے دیس پر ایسے حکمران مسلّط ہیں کے جنکے آنے پر میرے منہ سے بے اختیار نکل پڑا تھا کہ واپسی انکی گھر کو کیا کہیے، اب لْٹے گا آشیانہ بڑی ٹھاٹھ سے۔ اور پھر دیکھتے دیکھتے چند ماہ میں کیا سے کیا ہو گیا مگر ہم ہیں کے ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کے اپنے حق کے لیے آواز بلند کی جائے۔ اگر ہمیں انصاف کا نظام چاہئیے، بد عنوانی کا خاتمہ چاہئیے، قانون کی بالادستی چاہئیے، سویلین سپرمیسی چاہئیے، معاشی و معاشرتی استحکام چاہیے، تو آج اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔ ورنہ مستقبل کی تمام تر تاریکیوں کے زمہ دار ہم خود ہونگے۔ اب کوئی اقبال تو پیدا نہیں ہوگا جو اس قوم کو جنجھوڑ سکے۔ کیونکے برصغیر کے اس حصے میں بسنے والوں کو تو اقبال تب بھی پوری طرح جگانے میں ناکام رہے۔ اس لیے اپنے ضمیر سے سوال کیجئے اور اگر لگے کہ خدا نے ہمیں کوئی ایماندار، غیرتمند اور آزاد انسان بطور لیڈر عطائ کیا ہے تو اسکے ساتھ کھڑے ہوجائیے ورنہ ہر فرد پر لازم ہے کے تمام تر سیاسی اختلافات بھلا کر، اپنی گلی، ٹوٹی، نالی سے بڑھ کر اپنے مستقبل اپنے ملک کی بقا کا سوچے۔ تبدیلی کی باتیں تو بہت مگر صرف باتوں سے کبھی نظام نہیں بدلا کرتے۔ تاریخ ا انسانی میں انقلاب صرف اسی وقت ممکن ہوئے جب متوسط طبقے اور جوانوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا ارادہ کیا اور اپنے سکون پر قومی غیرت اور حمیت کو تَرجِیح دی۔ اللّہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کے ملک پاکستان کو قائِم و دائِم رکھے۔ اور ہماری ان ادھ مری جانوں میں زندگی کی روح پھونک دے کے ہم ملکی سالمیت، استحکام و ترقی اور اپنے حقوق اور انصاف کے نظام کے قیام کے لیے جد و جہد کر سکیں۔
"میں اسی گماں میں برسوں بڑا مطمئن رہا ہوں
تراجسم بے تغیر ، میرا پیار جاوداں ہے"
یہ زندہ لاشوں کا گورستان
Jan 28, 2023