میری پہلی ملازمت 

محمد اسلم لودھی 
فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن میں ملازمت کے دوران میرے فرائض میں پاکستان بھر سے آنے والے درجنوں خطوں کا جواب دینا بھی شامل تھا، خطوں کے جواب اکثر و بیشتر بیگم منظور قادر ہی دیا کرتی تھیں۔ بیگم منظور ، پاکستان کے سب سے پہلے وزیر قانون جناب منظور قادر کی بیگم تھیں۔ منظور قادر صاحب کا تو انتقال ہو چکا تھا لیکن ان کی بیگم کو فیملی پلاننگ میں اعزازی طور پر چیئرپرسن کے عہدے پر فائز کر دیا گیا تھا۔ وہ عمر رسیدہ عورت تھیں، ان کی عمر 70 سال سے کم نہیں ہو گی۔ وہ مزاج کے اعتبار سے خاصی چڑچڑی تھیں۔ یہاں آنے والے اکثر خطوط خاندانی منصوبہ بندی کے امور اور میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات کے حوالے سے ہی ہوتے۔ بیگم منظور قادر صاحبہ کا اپنا کوئی باقاعدہ دفتر نہیں تھا بلکہ دفتر میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب جو پہلا کمرہ جو مہمانوں کے لیے مخصوص تھا۔ اسی میں بیٹھ جاتیں اور استقبالیہ پر بیٹھی ہوئی خاتون کو حکم دیتی کہ اردو سٹینو گرافر کو بلائو اور اسے کہنا آتے ہوئے لوگوں کے خطوط بھی لیتا آئے۔ چونکہ خطوں پر مشتمل ڈاک میرے ہی پاس ہوتی تھی، اس لیے پہلے خط پڑھنا میرے فرائض میں شامل تھا، پھر بیگم منظور قادر صاحبہ کو پیش کرتا۔ جس خط کا جواب بیگم منظور قادر صاحبہ کو سمجھ نہ آتا تو وہ استقبالیہ پر کھڑی ہو کر ٹیلی فون کے ذریعے ڈاکٹر نشاط مسعود سے اونچی آواز سے بات کرتیں اور انہیں خط کا مضمون پڑھ کر سناتیں، اس لمحے جو لوگ وہاں سے گزر رہے ہوتے، وہ بھی کانوں پر ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ جاتے۔ کئی لوگوں نے شکایت کے لہجے میں مجھے بھی کہا کہ بیگم صاحبہ کو سمجھائیں، ایسے خطوط استقبالیہ پر کھڑے ہو کر نہ پڑھا کریں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے۔ استقبالیہ پر بھی ایک جو خاتون بیٹھتی تھی جو اردو زبان کو بہت اچھی طرح سمجھتی تھی بلکہ اردو میں روانی سے گفتگو بھی کرتیں۔ ڈاکٹر نشاط مسعود ، الٰہی بخش کلینک لارنس روڈ کے اندر فیملی پلاننگ ہسپتال میں بیٹھتی تھیں جہاں فیملی پلاننگ کے حوالے سے بیشمار خواتین علاج اور رہنمائی کے لیے آتیں۔ وہاں نس بندی کے آپریشن بھی کیے جاتے تھے اور خواتین کے دیگر پیچیدہ مسائل کا بھی شافی علاج کیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر نشاط مسعود کے شوہر ابتداء میں فیملی پلاننگ کے دفتر میں ڈائریکٹر ایڈمن تھے۔ بعد میں صدیقی صاحب نے ڈائریکٹر ایڈمن کا چارج سنبھال لیا تھا۔ 
ڈاکٹر نشاط مسعود، بیگم منظور قادر صاحبہ کی زبان سے خط کا مضمون سننے کے بعد جواب لکھواتیں۔ بعد میں اٹ پٹاک اردو میں لکھا ہوا کاغذ مجھے تھما دیا جاتا۔ جس کو میں اردو ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کرتا اور پوسٹ کر دیتا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ بیگم منظور قادر صاحبہ بہت چڑچڑی خاتون تھیں۔ وہ جب دفتر سے فارغ ہوتیں تو کار میں بیٹھنے سے پہلے دفتر سے کچھ ہی فاصلے پر ایک بوڑھے پھل والے کے پاس جا پہنچتی۔ پھلوں کو اپنے ہاتھوں سے ٹٹول ٹٹول کر دیکھ کر جب بھائو پوچھتیں تو پھل والا بابا اس کا ریٹ ڈبل بتا دیتا۔ بیگم منظور قادر صاحبہ ریٹ سنتے ہی غصے میں لال پیلی ہو جاتیں اور بلند آواز میں چیخنا چلانا شروع کر دیتیں۔ پھل والا بابا بھی اسی انداز  سے بیگم منظور قادر صاحبہ کو برا بھلا کہنے لگتا۔ بیگم منظور قادر صاحبہ پھلوں کے پیسے دے کر اس کو دیتی اور کہتیں میں آئندہ تیرے پاس نہیں آئوں گی لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اگلے روز پھر بیگم صاحبہ اسی پھل والے کے پاس کھڑی دکھائی دیتیں۔ 
ایک دن میں صبح نیند سے بیدار ہو کر اپنے محلے کی دوکان پر سودا لینے گیا تو وہاں مجھے اخبار دکھائی دیا۔ اخبار میں لکھا تھا کہ آج حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری عرس مبارک پر لوکل چھٹی ہے۔ یہ دیکھ کر میں بہت خوش ہوا کہ آج ہم چھٹی انجوائے کرتے ہیں۔ دوستوں سے گپیں ماریں گے، کرکٹ کھیلیں گے اور موجیں کرینگے۔ میں اس دن فیملی پلاننگ کے دفتر نہ گیا۔ جب بیگم صاحبہ دس گیارہ بجے دفتر پہنچیں تو انہوں نے حسب سابق استقبالیہ پر بیٹھی ہوئی خاتون کو حکم دیا کہ اردو سٹینو گرافر کو بلائو۔ اس نے سکھی گھر میں فون کیا تو ایڈیٹر سکھی گھر جناب رضا بدخشانی صاحب نے بتایا کہ وہ آج نہیں آئے ۔ جب یہ خبر خاتون استقبالیہ نے بیگم منظور قادر کو دی تو وہ غصے سے لال پیلی ہو گئیں اور بڑبڑانے لگیں۔ وہ کیوں نہیں آیا اس کو کس نے چھٹی دی۔ رضا صاحب نے بتایا کہ چھٹی کسی نے نہیں دی وہ خود ہی گھر سے نہیں آیا۔ پھر ایک صاحب نے انہیں بتایا کہ اخبار میں آج حضرت داتا گنج بخش کی کل چھٹی ہے۔ ہو سکتا ہے اس وجہ سے  نہ آیا۔ انہوں نے اسی وقت اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایڈمن غفار صاحب کو فون کیا۔ آج کون کون چھٹی پر ہے انہوں نے کچھ نام بتا دئیے۔ بیگم صاحبہ نے حکم دیا جس جس نے بھی آج چھٹی کی ہے اس کی تنخواہ میں سے ایک دن کے پیسے کاٹ لیے جائیں۔ بیگم صاحب کا حکم قانون بن چکا تھا، اس لیے جب میں دوسرے دن دفتر پہنچا تو وہ مجھ سے ناراض تھیں مجھے بلا کر ایسے بیٹھی ہوئی تھیں جیسے بچے کسی بات پر روٹھ جاتے ہیں۔ میں سلام کر کے سامنے سر جھکا کر بیٹھ گیا، کچھ دیر ماحول پر خاموشی طاری رہی پھر بیگم صاحبہ گرجیں تم کل کیوں نہیں آئے تھے، ان کے لہجے میں پیار بھی تھا اور ناراضگی کا احساس بھی۔ ملے جلے جذبات سے لبریز آواز کو میں پہچان چکا تھا کہ وہ میرے نہ آنے پر سخت خفا ہیں۔ میں نے معذرت کی اور ماحول ایک بار پھر خوگوار ہو گیا۔ میں نے انہیں چند خطوط دے کر کہا بیگم صاحب یہی خطوط ان دو دنوں میں آئے ہیں۔ اس کے بعد مجھے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایڈمن غفار صاحب نے بلایا اور کہا اس مہینے آپ کی تنخواہ سے ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جائے گی یہ بیگم منظور قادر صاحبہ کا حکم ہے۔ یہ سن کر میں پریشان ہو گیا۔ اگلے دن جب بیگم صاحبہ تشریف لے آئیں تو میں نے معذرت کرتے ہوئے گزارش کی کہ بیگم صاحبہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی۔ غفار صاحب میری ایک دن کی تنخواہ کاٹ رہے ہیں۔ بیگم صاحبہ اپنا پہلا حکم بھول چکی تھیں۔ اسی وقت استقبالیہ سے غفار صاحب کو فون کیا کس کی جرأت ہے کہ میرے سٹینوں کی ایک دن کی تنخواہ کاٹے۔ غفار صاحب نے پتہ نہیں کیا کہا لیکن مجھے بیگم صاحب نے کہہ دیا کہ تمہیں پوری تنخواہ ملے گی لیکن جن دوسرے ملازمین نے حضرت داتا گنج بخش عرس پر چھٹی کی تھی ان سب کی ایک دن کی تنخواہ کٹ گئی جبکہ مجھے بیگم صاحبہ کے حکم سے چھوڑ دیا گیا۔ 

ای پیپر دی نیشن