کالم نگار : ڈاکٹر جمشید نظر
وزیراعظم شہباز شریف نے پچھلے سال دسمبر میں اسلام آباد میں شمسی توانائی کے حوالے سے ایک کانفرنس میں10 ہزار میگاواٹ کے شمسی توانائی کے منصوبے کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک بھر میںسرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کریں گے اس منصوبے کا بنیادی مقصد شمسی توانائی سے بطور متبادل انرجی حاصل کرکے سستی بجلی پیدا کرنا ہے اس وقت شمسی توانائی کی لاگت تین سینٹ فی یونٹ ہے جبکہ شمسی توانائی پر منتقلی سے کسان کو 24 روپے فی یونٹ والی بجلی آٹھ روپے فی یونٹ میں مل سکے گی۔
پاکستان کی تاریخ کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا شمسی توانائی کا منصوبہ قائد اعظم سولر پارک کا منصوبہ ہے جس کا خواب شہباز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب دیکھا تھا جبکہ اس خواب کوسابق وزیر اعظم نواز شریف نے پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔یہ دنیا کا واحد 100میگا واٹ کا شمسی توانائی کا منصوبہ تھا جو ریکارڈ مدت میں مکمل کیا گیا تھا۔اس منصوبے پر تین ہزار افراد نے کام کیا تھا جن کووزیر اعظم کی جانب سے دو کروڑ روپے انعام بھی دیا گیا۔سن 2015میں جب بہاولپور کے بنجر علاقے چولستان میںسابق وزیر اعظم نواز شریف نے سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے کے لئے ریت کے میدانوں میں سولر پینلز کا جال بچھوایاتو اس وقت مسلم لیگ نون پر بڑی تنقیدکی گئی تھی کہ اس منصوبے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔اس وقت چند تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اس سولر منصوبے سے ملک میں چھائے اندھیرے ختم نہیں ہوسکیں گے کیونکہ سورج نے تو غروب ہونا ہی ہے پھر مغرب کے بعد بجلی کیسے پیدا ہوسکے گی؟ شائد آج چھ سات سال بعد ان تجزیہ نگاروں کو جواب مل چکا ہوگا کہ سولر سسٹم سے رات کو بھی بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔اسی سولرمنصوبے کی بنیاد پر سابق وزیر اعظم نواز شریف بارہا عوامی اجتماعات یہ خوشخبری عوام کو دے چکے تھے سولر منصوبے سے ملک میں چھائے اندھیرے ختم ہوں گے اور عوام کو ابتدائی طور پر سستی بجلی اور پھر مفت بجلی فراہم کی جائے گی۔پھر یہی ہوا ملک میں لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہونے لگا اور بجلی کی قیمتیں بھی کم ہونے لگیں ، قائداعظم سولر پارک سے پیدا ہونے والی سستی بجلی کی وجہ سے نیپرا نے بجلی کا ٹیرف 17 سینٹ سے کم کر کے 13 سینٹ کر دیا ۔اس سے قبل کے عوام کو مفت بجلی فراہم کی جاتی نواز شریف کی حکومت چلی گئی۔
اس وقت مہنگی بجلی سے صرف عام آدمی متاثر نہیں ہورہا بلکہ اس کی وجہ سے ملک کی معیشت بھی تباہ ہورہی ہے،پاکستان میں تیل اور گیس کا سالانہ درآمدی بل 27ارب ڈالر اور گردشی قرضہ 2500 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔گردشی قرضہ بڑھنے کی وجوہات میں اربوں ڈالر کے درآمدی بل سے پیدا ہونے والی مہنگی بجلی،لائن لاسز اور بجلی کی چوری جیسے عناصر شامل ہیں،ان بنیادی وجوہات کو ختم یا کم کئے بغیر معیشت کی بحالی ناممکن ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کے اعلان کے بعد سے سرکاری سکولوں اور محکموں کو سولر پر منتقل کرنے کا کام شروع ہوچکا ہے اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہئے کہ کم مارک اپ پر عوام کوسولربنک فناسنگ کی پالیسی کا بھی اعلان کرے تاکہ معیشت کی بحالی میں ہر شہری اپنا کردار ادا کرسکے۔موجودہ دور میں ہر کوئی سمشی توانائی کی افادیت سے بخوبی واقف ہو چکا ہے اسی لئے ہر پاکستانی سولر لگوانے کا خواہاں ہے لیکن وسائل نہ ہونے کی وجہ سے عوام سولر سسٹم لگوانے سے محروم ہیں، آئے روز سولر پینلز،انورٹرز اور نیٹ میٹرنگ میں استعمال ہونے والی میٹرز کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے سولر سسٹم ایک عام شہری کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے ،سولر سسٹم کے حوالے سے ایک ایسی قومی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس سے ایک عام شہری ایک مزدور،ایک دیہاڑی داراورریڑھی بان افراد بھی مستفید ہوسکیں۔
شمسی توانائی،درآمدی بل اور گردشی قرضے
Jan 28, 2023