لبنیٰ صفدر
جب آجاتی ہے دنیا گھوم پھر کر اپنے مرکز پر
تو واپس لوٹ کر گزرے زمانے کیوں نہیں آتے
یہ ان دنوں کی یاد میں ہے جب نہ ٹوئیٹر تھا نہ واٹس ایپ، نہ فیس بک تھی اور نہ ہی کالز اور میسجز کے فری پیکیج ہوا کرتے تھے، گھر میں افراد اور انسان نہیں رشتے بسا کرتے تھے، محبتیں تھیں اور وقت تھا، ہم اپنی مائوں سے اور نانیوں دادیوں سے شام کے کھانے کے بعد فرمائش کیا کرتے کہ وہ اپنے وقتوں کی باتیں ہمیں سنائیں۔ وہ زمانہ قدیم کی دیومالائی کہانیوں جیسی باتیں ہمیںمسحو رکیا کرتیں لگتا۔ جیسے وہ ایک الگ رومانوی دنیا کے قصے ہیں، رات کے کھانے کے بعد خاص طور پر جب بجلی بند ہوتی تو یہ باتیں کرنے کا ایک بہترین وقت ہوا کرتا، ایسی باتوں نے مکانوں کو گھر بنا رکھا تھا، ایک دوسرے کے لئے بھی وقت تھا اور اپنے لئے بھی بہت وقت ہوا کرتا، سکول سے واپس آکر سوجانا پھر اٹھ کر ڈرائینگ کرنا اور خوبصورت ڈائریوں میں تحاریر اور اشعار لکھنے جیسا دلچسپ مشغلہ ہونا، گھر اور باورچی خانے میں زبردستی انٹری مارنا، ریڈیو پر گانے سننا، سب کچھ خوبصورت تھا، جی ہاں میں بھی وہ 90 کے اسی حسین دور کی نسل سے ہوں، کسی نے ٹھیک تجربہ کیا ہے کہ 90 کی دہائی میں پیدا ہونے والے لوگ بہت خوش قسمت ہیں، جنہوں نے ریڈیو پر لتا اور کشور کمار کے گانے بھی سنے، مستنصر حسین تارڑ کا مارننگ شو دیکھ کر بی بے بچے بن کر سکول گئے، دنیا پرانے دور سے نکل کر تیزی سے جدید دور کے پرکشش اور پر تجسس زمانے میں داخل ہورہی تھی، انٹرنیٹ اور موبائل فونز نے زمانے کا نقشہ ہی بدل دیا، ڈرائنگ کی رنگ برنگی پنسلوں کی جگہ موبائل فون کی رنگا رنگ سکرین نے لے لی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے جدید دور نے اتنی تیزی سے کروٹ بدل کر اپنا جلوہ دکھایا کہ خوابوں جیسی باتیںتعبیر بن کر آنکھوں کے سامنے آکھڑی ہوئیں، خیر یہ بہت لمبی چوڑی بحث ہے یا ہمارے زمانے کی کہانی اس دنیا میں مجھے کل سے ہونے والے کریک ڈائون نے پہنچایا ہے، اکثریت کریکٹ ڈائون سے پریشان ہوگئی اور بجلی بند ہوگئی تو پورے ملک کانظام ہی ایک دم بند ہوکر رہ گیا۔کوئی شک نہیں کہ اب چیزیں اور سہولیات اس قدر زندگی کا ضروری حصہ بن چکی ہیں کہ کچھ گھنٹے ان کے بغیر گزارنا بھی مشکل لگتا ہے، بجلی کی بندش سے کاروبار زندگی کو بریک لگ گئی، یہ غلط ہوا کہ صنعتیں بند ہوگئیں، مارکیٹوں میں اندھیرا چھا گیا، ایک دن میں اربوں کا نقصان بھی ہوا، یہ بھی بہت غلط ہے، لیکن ہر غلط کا ایک صحیح اور روشن پہلو بھی ہوتا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ بہت اچھا تھا، وقت پھر سے لوٹ آیا، وہ جو ہم کہتے ہیں نا کہ پیسے کی طرح وقت میں برکت نہیں رہی، یقین مانئے وقت میں آج بھی اتنی ہی برکت ہے، اس کا احساس کریک ڈائون کے پہلے روز ہی ہوگیا، نوکری کے تقاضے بھی نبھائے، گھر اور بچے کی ذمہ داریاں بھی اپنے وقت پر پوری کیں، کھانا اپنے وقت پر تیار کیا، اس کے بعد شام کو اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر خوش گپیوں کا وافر وقت پھر بھی موجود تھا، قصور وقت کا نہیں ہے بے برکتی وقت میں ہرگز نہیں ہے، ہمیں اپنی عادات نے ان خوبصورتیوں سے دور کردیا ہے، ہمارا زیادہ تروقت موبائل فونز کی سکرینز اور ٹی وی سکرینز پر ہی گھنٹوں کے حساب سے ضائع ہوجاتا ہے، صبح کے نور کے ساتھ پروں کو کھولے پرندے جب اپنے گھونسلوں سے نکل کر آسمان کی وسعتوں میں پروازیںبھرتے ہیں، حمد و ثناء کے گیت گاتے ہیں، ہوا جب اونچے درختوں کے سروں سے سرسراتی ہوئی گزرتی ہے تو ایک موسیقی سی بجتی ہے، سورج کس شان سے اپنی جھلک دکھلاتا ہے، ایک نئی صبح، ایک نئے دن کا آغاز ہوتا ہے، رات کے شفاف آسمان پر کروڑوں اربوں کہکشائوں کی دنیا جگمگاتی ہے، لیکن اب ان کو دیکھنے کی فرصت باقی نہیں رہی، ہم صبح سویرے جاگتے ہیں لیکن اپنی نوکری اور سکول کالجز جانے کی جلدی میں قدرت کے قریب ہوکر اسے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع نہیں ہوتا۔ رات کو پیزا اور برگر کی کشش ہمیں آسمان کی طرف نگاہ کرنے کی فرصت مہیا نہیںکرتی، آہ اس بریک ڈائون نے ہمیں ایک دن میں ان خوبصورتیوں اور قدرت کے کرشماتی نظاروں کے کس قدر قریب کردیا ہے، میں نے سنا ہے کہ وزیراعظم نے بجلی بریک ڈائون پر قوم سے معذرت کی ہے اور کہا ہے کہ بریک ڈائون کی وجوہات جاننے کیلئے انکوائری کا حکم دیا ہے، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی، یقینا اگر کہیں کوئی غفلت ہوئی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی بھی چاہئے، لیکن ہمیں ایک دن یہ سیکھنے کا موقع بھی ضرور ملا کہ کوئی مشکل وقت آپڑے تو اس پررونے دھونے کی بجائے اس کا سامنا کرنے میں بھی ایک خوبصورتی ہے، شکریہ کہ اس بریک ڈائون نے گھروں میں رشتوں کے درمیان آنے والے بریک ڈائون کو عارضی طور پر ہی سہی، Jointکرنے کا بھی کام کیا۔
وقت اب دسترس میں ہے اختر
اب تو میں جس جہان تک ہوائوں