تَکیَہ اور کَلام دو علیحدہ علیحدہ شبد ہیں۔ دونوں اپنے وجود کا احساس دلانے کے لئے جداگانہ حیثیت اور معانی رکھتے ہیں۔ روئی یا کسی اور نرم چیز سے بھرا ہوا اور دیدہ زیب کپڑے کے غلاف میں لپٹا ہوا آئٹم تکیہ کہلاتا ہے۔ یہ تکیہ پہلو، پائینتی، کمر کے پیچھے یا سر کے نیچے رکھ کر آرام کرنے کی غرض سے استعمال ہوتا ہے۔ درویشوں اور فقیروں کے رہنے والی جگہ بھی تکیہ کہلاتی ہے۔ حدیث شریف میں تکیہ، تیل (خوشبو) اور دودھ کو رد نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ثاقب لکھنوی کی غزل کے ایک شعر کے دوسرے مصرعے نے بہت شہرت کمائی۔ "جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوا دینے لگے".
لفظ َ"کلام" عام بول چال یا سخنِ منظوم میں مستعمل ہے۔ عارفانہ کلام صوفی شعراء کے ناموں کے ساتھ گویا چپک کر رہ گیا ہے۔ لیکن اگر ان دونوں لفظوں کو یکجا کرکے پڑھا جائے تو مفہوم میں ایک واضح بدلاؤ آ جاتا ہے۔ بالکل اِسی طرح جیسے علم کیمیا میں پانی(H2O )، ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے۔ ہَیئَتِ تَرکِیبی کے اعتبار سے ہائیڈروجن اور آکسیجن دونوں گیسیں ہیں مگر جب یہ دونوں ایک خاص تناسب سے کیمیائی عمل کا حصہ بنتی ہیں تو اپنی شناخت کھو کر پانی میں بدل جاتی ہیں.
کرہ ارض پر 70 سے 75 فیصد تک وافر مقدار میں پانی کے ذخائر ہونے کے باوجود پینے کے 'صاف پانی' کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق صاف پانی کی مقدار صرف ایک یا دو فیصد ہے اور یہ پانی بھی زیادہ تر پہاڑی تودوں میں پایا جاتا ہے جس کو استعمال کے لئے نکالنا ایک دشوار گزار عمل ہے۔ صد حیف، ہم ہر روز دریائے سندھ کے صاف پانی کی ایک وافر مقدار اپنی نرگسیت کی نذر کر رہے ہیں۔ سیلاب، لوڈشیڈنگ اور مہنگی بجلی کے عذاب جھیل رہے ہیں مگر کیا مجال جو ڈیم بنانے کے لئے راضی ہو سکے ہوں۔
کیمسٹری کی بات چلے اور فزکس کا ذکر نہ ہو تو اِسے امتیازی سلوک ہی کہا جائے گا۔ روز مرہ زندگی میں کام (work) کی اہمیت بہت مسلمہ ہے۔ بظاہر کام حرکت میں رہ کر بھی کیا جا سکتا ہے اور آرام و سکون سے بیٹھ کر بھی، مگر فزکس کی رو سے ایک جگہ پر بیٹھ کر کام کرنا "کام" نہیں کہلا سکتا۔ اس کی ایک مشہور مساوات WFD کے مطابق قوت لگانے اور فاصلہ طے کرنے کو ہی "کام" کہا جا سکتا ہے.
ارضِ وطن کے انتہائی محنتی، پابند اور ہمہ وقت مصروف گداگر موسمی سختیوں سے بے نیاز حصولِ رزق کی تلاش میں جتے رہتے ہیں۔ لوگوں سے کڑوی کسیلی باتیں سننا، مار کھانا اور بسا اوقات پولیس کے ہتھے چڑھ جانا بھی اِن کے عزمِ صمیم میں خلل نہیں ڈال سکتا۔ یہ طاقت بھی صرف کرتے ہیں اور فاصلے بھی طے کرتے ہیں۔ قانون طبیعیات کے مطابق ان کی یہ مشقت کام میں شمار ہونی چاہئیے مگر درحقیقت ایسا نہیں ہوتا۔ ان پر علم طبیعیات کی بجائے اصول معاشیات لاگو ہو جاتا ہے جس کے تحت بھکاریوں کی بے پناہ آمدنی کو قومی آمدنی میں شمار ہی نہیں کیا جاتا۔
بات تَکیَہ کَلام سے شروع ہوئی اور کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ دراصل کسی انسان کے غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر ذہن میں آمدہ مختصر سے جملے کی زبان سے بار بار ادائیگی تَکیَہ کَلام کہلاتی ہے۔ اسکی ادائیگی کی وجوہات میں احساس کمتری، گفتار پر عدم دسترس اور ذخیرہ الفاظ میں کمی کا احساس شامل ہیں۔ اِس کا استعمال کتابی و ادبی زبانوں میں ہوا ہے۔ علاوہ ازیں یہ کم و بیش تمام اصناف سخن، حتیٰ کہ دینی و مذہبی ادب میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ فلم یا ڈراموں میں کسی ایک کامیڈین کے لئے ایک مختصر فقرہ بطور تکیہ کلام شامل کر دیا جاتا ہے جس سے شائقین محظوظ ہوتے ہیں۔
تکیہ کلام پوری دنیا میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ خطے، زبان، نسل اور قوم کے جھنجھٹ سے کلی طور پر آزاد ہے۔ انگریزی زبان میں تکیہ کلام کو catch word کہتے ہیں۔ امریکیوں کے دو تکیہ کلام "یو نو" (you know) اور "آئی سی" (I see) کا چلن پاکستان سمیت پوری دنیا میں عام ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تکیہ کلام ہر تکلم کی اپنی اختراع ہوتا ہے۔ یہ کسی سے متاثر ہو کر ادا نہیں کیا جاتا.
زیادہ پڑھے لکھے لوگ اور سیاست دان عام طور پر تکیہ کلام کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں مگر شریف خاندان کا مشترکہ تکیہ کلام "الحمدللہ" ہے۔ تاہم نواز شریف"اللہ کے فضل و کرم سے" بھی اپنی ہر تقریر اور گفتگو میں بولتے ہیں۔ "وہ جو ہے" اور "جان اللہ کو دینی ہے"، یہ بھی دو سیاست دانوں کا تکیہ کلام ہے۔ انشاء اللہ اور ماشاء اللہ کے علاوہ بعض لوگ اپنی پسندیدہ گالی کو بھی بطور تکیہ کلام استعمال کرتے ہیں۔ اور ہاں! خاموش طبع غریب آدمی کا کسی بڑے آدمی کی بات بات پر اثبات میں سر ہلانا بھی تکیہ کلام کا ایک غیر صوتی حصہ ہوتا ہے.
تاریخ پاکستان کا تکیہ کلام" ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے" جبکہ آئین پاکستان کا تکیہ کلام "نظریہ ضرورت" ہے۔ "ہمارے صبر کو کمزوری نہ سمجھا جائے"، "قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، "قانون حرکت میں آئے گا"، "آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا" اور "ملک تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے." وغیرہ وغیرہ، وہ سرکاری بیانات ہیں جو سالہا سال کے کثرتِ استعمال سے اب تکیہ کلام کا روپ دھار چکے ہیں۔
٭…٭…٭