کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں کے لیے ماں کی طرح ہوتی ہے ، لیکن پاکستان میں اس کا کردار سوتیلی ماں جیسا بن کر رہ گیا ہے۔
ہم یورپین ممالک کی مثالیں دیتے ہیں جب بات مہنگائی کی آتی ہے لیکن یہ مثالیں دیتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ اْن کی انکم بھی ڈالر اور پاونڈ میں ہوتی ہے۔ اگر پٹرول بجلی گیس ادویات آٹا اور چاول جو بنیادی ضروریات زندگی ہیں وہ ڈالر کے ریٹ سے میسر ہونی ہیں تو پھر پاکستانیوں کو وسائل اور آمدن بھی ڈالر اور پاونڈ کے حساب سے مہیا کئے جائیں۔ حکومتیں بنائی اور چلائی جاتی ہیں عوامی فلاح و بہبود کے لیے ، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں حکومتیں بنتی ہیں فقط اپنی حکومت چلانے کے لیے جن کو اس سے کوئی سروکار دکھائی نہیں دیتا کہ لوگ کمائیں گے کہاں سے اور کھائیں گے کیسے ؟
ہمارے ہمسائے ملک چین نے جتنی ترقی کی ہے اس کی بنیاد ہر انسان کو روزگار مہیا کرنا ہے ، ہمیشہ وہی ملک ترقی کرتا اور امیر ہوتا ہے جس کے عوام بھی امیر ہوں کیونکہ ریاست انہیں بہترین روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے جہاں سے اچھے کاروبار کر کے وہ اپنی ریاست کو خوشدلی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں انسان اور انسانی زندگیوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
ہمارے پاس صدیوں پرانی صرف ایک مثال ہے ، دجلہ کنارے کسی کتے کے بھوک سے مرجانے پر حاکم کی جوابدہی کی !!! لیکن پورا یورپ کئی سو سال سے عملی نمونہ ہے اس بات کہ انسان تو کْجا وہ حیوانی حیات کو بھی کتنی ترجیح دیتے ہیں۔
اس لمبی تہمید کا مقصد پاکستان میں عوام کی جان نکالنے والے ہوشربا بجلی اور گیس کے بلز ہیں۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی بجلی کے بلز درجنوں عوام کی زندگیاں چھین رہے تھے۔۔۔ لوگ بجلی کے کرنٹ سے نہیں بلکہ بجلی کے بل سے دھڑا دھڑ موت کے منہ میں جا رہے تھے تو پاکستانی حکومت کو ہوش آئی اور اس نے بجلی کے بلوں سے اپنا رخ گیس کے بلز کی طرف کر لیا۔۔۔ ویسے بھی ٹھنڈ کے موسم میں بجلی کی کھپت کم ہو جاتی ہے تو سردیوں میں بجلی کا بزنس غیر منافع بخش ہو جاتا ہے ۔
یورپ میں سردی شدید ہوتی ہے۔ برطانیہ تک میں حکومت اپنے شہریوں کو ٹھنڈ سے محفوظ رکھنے کے لیے روس سے گیس خرید کر چوبیس گھنٹے اس کی فراہمی یقینی بناتی ہے اور انگلینڈ میں کسی شہری کا بجلی یا گیس کا کنکشن کاٹنا قانوناً جرم ہے کہ بجلی یا گیس کی عدم فراہمی سے کسی شہری کی جان چلی جائے تو اس کا ذمہ دار متعلقہ محکمہ ہوتا ہے۔ اگر وہاں کوئی شہری گیس یا بجلی کا بل ادا نہ کر رہا یو تو ادارے کا سٹاف اس کے گھر جاتا ہے عدم ادائیگی کی وجہ پوچھتا ہے۔
اگر صارف کے پاس روزگار نہ یو تو وہ فوری اپنے بل کی قسطیں کرتے ہیں اور موقع پر حکومت کے ان اداروں کو طلب کر لیتے ہیں جو اپنے شہریوں کی مالی امداد کرتے اور انہیں قرض فراہم کرتے ہیں۔ بجلی یا گیس کا عملہ اپنے واجبات ان اداروں سے وصول کرتا ہے اور اپنے نادہندہ کی بجلی یا گیس کی سپلائی منقطع نہیں ہونے دیتا۔
سالوں تک لندن میں قیام کرنے والے ہمارے متعدد حکمران شاید وہاں کے حکومتی نظام کا کوئی ایک لفظ بھی اس لیے پڑھ اور سیکھ نہیں پاتے کہ انہیں پڑھنا ہی نہیں آتا اور ان کی کامن سینسز کام نہیں کر رہی ہوتیں۔ یہ دیکھنے سننے کھانے پینے اور محسوس کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکے ہوتے ہیں۔ اسی لیے پاکستانی حکومتیں شہریوں کو وسائل فراھم کرنے والا اپنا فرض بھول کر حکومت چلانے کے لیے لوگوں کو روزانہ لوٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے کو ہی حکومت چلانا سمجھ لیتی ہیں ۔
٭…٭…٭