میں کوشش کرتا ہوں کہ سیاسی معاملات میں مذہبی حوالے نہ دیا جائیں، نہ ہی مذہب کا سہارا لے کر سیاسی بات چیت کی جائے۔ یہ ہونا نہیں چاہیے، جب آپ سیاست کر رہے ہیں تو سیاسی حوالے ڈھونڈیں، آپ سیاست پر بات کر رہے ہیں تو سیاسی سوچ اور فکر کے مطابق بات کریں۔ مذہبی حوالوں سے لوگوں کے جذبات ابھارنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ سیاسی گفتگو کرتے ہوئے آپ کے پاس سیاسی معاملات پر گرفت ہو تو دائیں بائیں جانے کی ضرورت نہیں رہتی لیکن بدقسمتی سے جب کوئی بااختیار ہوتا ہے تو وہ سب کچھ بھول جاتا ہے اور جب اقتدار و اختیار نہیں رہتا، طاقت نہیں رہتی تو اس وقت قرآن کی آیات یاد آتی ہیں، اللہ کے احکامات یاد آتے ہیں، احادیث یاد آتی ہیں۔ درحقیقت ان چیزوں پر عمل کا وقت وہ ہوتا ہے جب کوئی شخص طاقت رکھتا ہو، اختیار و اقتدار اس کے پاس ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تو ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے یہاں تو مذہبی جماعتیں مذہب کا سہارا لے کر سیاست کرتی ہیں اور سیاسی لوگ مشکل وقت میں مذہب کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ کبھی کوئی مذہبی ٹچ دیتا ہے تو کبھی مشکل میں لوگوں کو قرآنی آیات کا حوالہ دیتا ہے۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بھی یہی کام کیا ہے۔ صدر مملکت کہتے ہیں "قاضی کا کام قانون پر عمل کرانا ہے قرآن کریم میں ہے کہ دشمنی میں بھی انصاف کا دامن نہ چھوڑیں، قرآن و سنت سے قانون بنتا ہے۔ جناب صدر اس وقت آپ ایک نمائشی پلس صدر ہیں جب آپ کی حکومت تھی اختیار اس وقت بھی نہیں تھا آپ کی جماعت حکومت میں تھی جو ظلم اس وقت ہو رہا تھا کیا وہ قرآنی آیات کے مطابق تھا، کیا اس وقت آپ کو انصاف کے اسلامی تقاضے یاد تھے، کیا اس وقت قاضی کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ آج آپ کے بس میں کچھ نہیں ہے تو آپ لوگوں کے جذبات ابھارنے کے لیے قرآنی آیات کا حوالہ دے رہے ہیں۔ جو ظلم آپ کی حکومت میں ہوا اس کا حساب کون دے گا، جو مہنگائی ہوئی، لوگ بھوک، پیاس، بیروزگاری سے مرے، ادویات کی قلت سے جانی نقصان ہوا اس کا حساب کون دے گا۔ اپنی حکومت میں قرآن مجید کی آیات پر عمل نہ کرنے والوں کے نام لکھیں اور قوم کو بتائیں کہ کس کس نے ظلم کیا اور اسلام میں اس کی سزا کیا ہے، کیا آپ ظلم کرنے والوں کی مذمت کرتے ہیں، کیا آپ کو ان ظالموں کا ساتھ دینے پر کوئی ندامت ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ایک سیاسی شخصیت ہونے کے ناطے سیاسی انداز میں معاملات کو آگے بڑھائیں۔ مذہب ایک حساس معاملہ ہے اپنی غلطیوں کے ساتھ مذہب کے پیچھے چھپنے کی کوشش نہ کریں۔ صدر صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ ڈنڈا ہر مسئلے کا حل نہیں کاش یہ خیال آپکو دو ہزار انیس یا دو ہزار میں بھی ستاتا، اس وقت تو ڈنڈا چلانے کو کمال سمجھا جاتا تھا جو زیادہ ڈنڈا چلاتا تھا وہ محبوب سمجھا جاتا تھا اور جو زیادہ زبان چلاتا تھا وہ محبوب پلس ہو جاتا تھا۔ جناب صدر اس ظلم کا حساب کون دے گا۔ وہ نفرت جو آپ نے پھیلائی ہے اس کا ذمہ دار بھی تو کوئی ہے یا نہیں۔
سیاست دانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کرنے کے بجائے الجھتے رہتے ہیں ان دنوں یہ سلسلہ انتخابی مہم میں بھی نظر آ رہا ہے۔ بالخصوص بلاول بھٹو زرداری نے حریف سیاسی جماعتوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ کبھی میاں نواز شریف کو برا بھلا کہتے ہیں تو کبھی پاکستان تحریک انصاف پر تیر
برساتے ہیں۔ وہ نئی سوچ کا منشور اور نعرہ تو دے رہے ہیں لیکن ان کا طرز سیاست پرانا ہے۔ کیا دو ہزار چوبیس میں بھی وہ انیس سو ستاسی کی سیاست کے ذریعے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیا یہی وہ نئی سوچ ہے جس کے ذریعے وہ عوامی حمایت کے خواہش مند ہیں۔ کیا دو ہزار چوبیس میں بھی نفرت پھیلا کر ووٹ لینا اولین مقصد ہے۔ ان کے مقابلے میں میاں نواز شریف نسبتا بہتر انداز میں عوام سے مخاطب ہوتے ہیں وہ مہنگائی کو کم کرنے اور معیشت کو مضبوط کرنے پر زور دیتے ہیں۔ وہ بھی بانی پی ٹی آئی پر غصہ نکالتے ہیں لیکن ملکی مسائل حل کرنے کی بات بھی کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر سیاسی قیادت کو ملک میں عدم برداشت اور نفرت کی فضاء کو ختم کرنے کے لیے مثال بننا ہو گا۔ اگر سیاسی قیادت خود الزام تراشیاں کرے گی تو ووٹرز کیسے ایک دوسرے کا احترام کریں گے۔ برداشت، تحمل، اتحاد، محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں امجد اسلام امجد کا کلام
زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے
چند بے ربط سے صفحوں میں، کتابِ جاں کے
اِک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے
ایک ہی شکل نظر آتی ہے، جاگے، سوئے
تم نے جادْو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے
یہ جو اِک خواب ہے آنکھوں میں نہفتہ، مت پوچھ
کس طرح ہم نے زمانے سے بچا رکھا ہے!
کیسے خوشبو کو بِکھر جانے سے روکے کوئی!
رزقِ غنچہ اسی گٹھڑی میں بندھا رکھا ہے
کب سے احباب جِسے حلقہ کیے بیٹھے تھے
وہ چراغ آج سرِ راہِ ہوا، رکھا ہے
دن میں سائے کی طرح ساتھ رہا، لشکرِ غم
رات نے اور ہی طوفان اٹھا رکھا ہے
یاد بھی آتا نہیں اب کہ گِلے تھے کیا کیا
سب کو اْس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے
دل میں خوشبو کی طرح پھرتی ہیں یادیں،
ہم نے اس دشت کو گلزار بنا رکھا ہے