نئی حکومتیں پرانے مسائل

لگ بھگ 14سال بعد مےاں نواز شرےف نے تےسر ی بار اِس ملک کے وزےراعظم کے عہدے کا حلف اُٹھاکے اےک تارےخ رقم کی۔ اِسی طرح اِنکے برادر خورد مےاں شہباز شرےف نے بھی تےسری بار پنجاب کے وزےر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اُٹھا کے تارےخ سازی کے اِس عمل مےںاپنا کردار ادا کےا۔ انتخابات سے قبل وفاق اور صوبوں کی سطح پرگورننس کا جو عالم تھا، عوام اُس سے سخت نالاں اور بے زار تھے، انتخابی نتائج بڑی حد تک اُن جذبات اور اِحساسات کی ترجمانی کرتے ہےں۔ مسلم لےگ (ن) کی پنجاب مےں کامےابی دےگر صوبوں اور وفاق کے مقابلہ مےں پنجاب مےں نسبتًا بہتر صورتحال چند مےگا پراجےکٹس کی بروقت تکمےل اورانکی پبلےسٹی کی مرہون منت ہے۔ پنجاب کی حکومت بالخصوص پنجاب کے وزےر اعلیٰ نے ان پراجےکٹس کی تعمےر کا بےڑا اُٹھا کر اپنی پارٹی اور خود اپنی شہرت کو داﺅ پر لگا دےا تھا۔ اگر ےہ منصوبے بروقت مکمل نہ ہوتے تو جس قدر فائدہ اُنکی بروقت تعمےر و تکمےل سے مسلم لےگ (ن) اور مےاں نواز شرےف کو پہنچا اُسی قدر نقصان تکمےل مےں تاخےر ہو جانے سے ان دونوں کو پہنچ سکتا تھا لےکن مےاں شہباز شرےف نے اپنی رواےتی چابکدستی، محنت اور جانفشانی سے قرےب قرےب ناممکن کو ممکن کر دکھاےا جس کا بھرپور فائدہ مسلم لےگ (ن) نے اُٹھاےا۔ اِس کوشش اور کامےابی پر مےاں شہباز شرےف بجا طور پر تحسےن کے مستحق ہےں۔ محض عجلت پسندی اور برق رفتاری ہی مےاں شہباز شرےف کی طبےعت کا خاصہ نہےں اس مرتبہ تو انہوں نے بھی ثابت کر دکھاےا کہ عوام کی نبض پر بھی بھرپور اِن کا ہاتھ ہے اُنھوں نے صحےح اندازہ لگاےا کہ عوام کن اقدام کو پسندکرےنگے اور پھر ’بے خطر کود پڑا آتش نمرود مےں عشق‘ کے مصداق تن من دھن اِن منصوبوں کی کامےاب تکمےل مےں لگا دِےا لےکن گورننس کے بارے مےں اےسا نہےں کہ پنجاب مےں دودھ اور شہد کی نہرےں بہتی تھےں، جرائم ناپےد تھے، رشوت ختم ہو گئی تھی، شہری خود کو محفوظ سمجھتے تھے اور راوی چےن کی بنسری بجاتا تھا ،۔حالات اِس سے بہت مختلف اور زندگی بہت تلخ تھی۔ لےکن پھر بھی وفاق اور دےگر صوبوں کے مقابلہ مےں صورتحال قدرے بہتر تھی۔
انتخابات کے بعد نئی حکومتےں معرض وجود مےں آ چکےں اور اپنے فرائض کی بجا آوری مےں مصروف بھی ہو گئےں لےکن لوگوں کی تکالےف مےں کمی آنے کی بجائے اُلٹا اضافہ دےکھنے مےں آےا ہے۔ دہشت گردی، قتل وغارت، مذہبی انتہا پسندی کسی صورت کم ہونے کا نام نہےں لےتی۔ کراچی،کوئٹہ، خےبر پی کے بلکہ اب تو لاہور بھی پاک سر زمےن کا کوئی حصہ بھی اِن دہشت گردوں سے محفوظ نہےں ہے۔ کسی نئی حکومتوں کے بن جانے کے بعد اول سو دِنوں مےں دےکھ لےا جاتا ہے کہ اُنکا رُجحا ن کس طرف ہے اور کےا ہونے جا رہا ہے ہمارے ےہاں نئی حکومتےں قائم ہوئے گو سو دن تو نہےں ہوئے لےکن اِسی مختصر سی مدت مےں اندازہ لگاےا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں مےں عوام کو کےا سہولتیں ملنے والی ہےں ےا اُنہےں کن نئے مصائب کا سامنا کرنا ہو گا۔
رمضان کے مہےنہ کے آغاز سے ہی اشےاءخوردنی کی قےمتوں مےں ہوشرُبا اضافہ ہو گےا سبزی، گوشت، پھل غرض وہ تمام اشےاءجن کی روزہ داروں کو ضرورت ہو سکتی ہے انکے دام آسمان سے باتےں کرنے لگے، مٹی کا تےل ، پٹرول، ڈےزل کی قےمتوں مےں زبردست اضافہ ہونے لگا، پٹرول اور ڈےزل کی قےمتوںمےں اضافے سے دےگر ِاشےاءکی قےمتوں مےں بھی اضافہ ناگزےر ہو جاتا ہے کےونکہ رسل و رسائل کے دام بڑھ جاتے ہےں اور اشےائے ضرورت کو منڈےوں تک پہچانے پر زےادہ رقم خرچ کرنا پڑتی ہے، اُس پر نئے بجٹ مےں ٹےکسوں کا نفاذ بھی کچھ اِس طرح کےا گےا کہ زد عام صارف پر پڑتی ہے ےا اُن لوگوں پر جن کی آمدن محدود ہے اور جو پہلے ہی ٹےکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہےں۔ روپے کی قدر متواتر کم ہوتی جاتی ہے جسکی وجہ سے پاکستان مےں پےدا ہونے والا ہر بچہ اپنے پےدائش کے وقت 43 ہزار روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ بجلی، پٹرول اور ڈےزل کی قےمتوں مےں مزےد اضافہ ہونے کو ہے جس کی وجہ تو وزےر خزانہ نے عوام کو بتا دی کہ روپے کی قدر کم ہونے سے پٹرول پروڈکٹس کی درآمد پر زےادہ رقم خرچ ہو گی۔کاش وزےر خزانہ کوئی اےسی تجاوےز بھی عوام دے سکتے جس سے اِن کے زندہ رہنے کی اذےت مےں معمولی سی کمی ہو سکتی ہو۔
بیروزگاری آسمان سے باتےںکر رہی ہے توانائی کی ناہوت سے صنعت کا پہےہ جام ہونے کو ہے، دہشت گردی کا آسےب کسی طرح قابو مےں آتا ہوا نظر نہےں آتا۔ وطن دشمن عناصر جو نہ جمہورےت کو خاطر مےں لاتے ہےں، نہ دستور کو، ےہ لوگ مملکت خدادادِ پاکستان کو دشمن سمجھ کے اِسے ہمہ وقت نقصان پہچانے کے درپے رہتے ہےں۔ دہشت گردوں کے حملوں مےں ہزاروں شہری لقمہ اجل بن چکے، ادھر فوج کے ہزاروں افسروں اور جوانوں کی تعداد اِنکے علاوہ ہے جو دہشت گردی کی روک تھام کرتے ہوئے شہےد ہوئے، صوبہ خیبر پی کے کو دہشت گردی مےں سب سے زےادہ نقصان اُٹھانا پڑاہے، اِسکے علاوہ ملک کے مالےاتی مرکز کراچی مےں آگ اور خون کا کھےل بھی ختم ہونے کا نام نہےں لےتا، دس پندرہ افراد بِلاناغہ جان سے ہاتھ دھو بےٹھتے ہےں، بلوچستان کا شہر کوئٹہ بھی آئے دنِ خون مےں نہلا دےا جاتا ہے ہلاک ہو جانے والوں مےں بڑی تعداد غےر بلوچ ےا غےر پشتون لوگوں کی ہوتی ہے اسکے علاوہ ہزارہ اہلِ تشیع مذہبی انتہا پسندی کا شکار سیکڑوں کی تعداد مےں لقمہ اجل بن چکے ہےں۔نئی حکومتےں قائم تو ہو چکےں لےکن اُنہےں اےک طرف تو مالی مسائل کا سامنا ہے دوسرے آسمان سے باتےں کرتی عوامی توقعات پھر الےکشن کے دوران سےاستدانوں کے بلند و بانگ دعوے اور سب کچھ کر ڈالنے کی نوےد، سےاسی پارٹےوں کے منشور اور سرزمےنِ وطن کو جنتِ نظےر بنانے کے عظیم اعلانات مےں اےسا ماحول پےدا کئے ہوئے ہےں جس سے نئی حکومتوںکا کام انتہائی دشوار نظر آتا ہے۔ ےہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کے چہروں پر انتخابات مےں کامےابی کی خوشی کی بجائے مشکلات کی ٹینشن زےادہ نماےاں ہے پھر اےک اور بڑا فرق جو پچھلی حکومتوںاور موجودہ دور مےں ہے وہ اےک مو¿ثر بے باک اور بے رحم مےڈےا کا ہے۔ موجودہ حکومت کو اب صرف اےک نےشنل ٹی وی کا ہی سامنا نہےں بلکہ درجنوں ٹی وی چےنلز کا سامنا کرنا ہو گا، چےنلز جو کسی رُو رعایت کے قائل نہےں اور جو حکمرانوں کو آئےنہ دکھانا اپنا فرض سمجھتے ہےں، حکومت اگر اپنے منشور سے ذرا ہٹی ےا وعدے اےفا کرنے مےں ذرا کسل مندی کامظاہرہ کےا تو حکمران ےاد رکھےں کہ ےہ وہی مےڈےا ہے جس نے پےپلز پارٹی کی حکومت اور حکمرانوں کے بخئےے اُدھیڑ کے رکھ دئےے تھے اور سانس لےنا تک اُن کے لےے عذاب بن گےا تھا۔عنقرےب نظر آنا شروع ہو جائے گا کہ حکومت کی نےت کےا ہے اور نئے حکمرانوں مےں مسائل حل کرنے کی اہلےت ہے بھی ےا نہےں۔ تنقےد کرنا بہت آسان ہے تعمےر اےک کٹھن کام ہے جس مےں محنت، لگن کے بغےر کچھ حاصل نہےں ہوتا عوام کو بھی ذراکچھ دےر صبر سے کام لےنا چاہےئے تاکہ جو منصوبہ بندی نئی حکومتوں نے کی ہے اُس پر عمل کرنے کا اُنھےں موقعہ مل سکے، دہشت گردی کا خاتمہ توانائی کے مسائل کا حل، معےشت کا احےاءاور رشوت کا قلع قمع کرنا اےسے مسائل ہےںجنہےں حل کےے بغےر اِس قوم کے اُفق پر چھائی ہوئی ماےوسی دور نہ ہو سکے گی، خوش قسمتی سے ےہ تمام مسائل حل بھی ہو سکتے ہےں، اعلیٰ قےادت اور دےانت اس کیلئے درکار ہےں، کےا ےہ ہم مےں موجود ہے؟

ای پیپر دی نیشن