وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف جو کہتے ہیں وہ کرکے دکھا دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریروں میں لوڈشیڈنگ مکمل ختم ہونے کی جو مدت بیان کی تھی وہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی بجلی پوری ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس طرف ایک بڑا قدم ہفتہ کی صبح چینی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کیساتھ 24 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے MOU پر دستخط کرنے سے اٹھایا گیا ہے۔ اس بجلی کی پیداوار مہنگے تیل سے نہیں بلکہ سستے کوئلے سے ہو گی۔ گوالیار (بلوچستان) میں بجلی پیدا کرنے کے چار الگ الگ یونٹ لگائے جائینگے جو مجموعی طور پر 24 سو میگاواٹ بجلی فراہم کرینگے۔ ان میں سے دو یونٹ صرف دو سال کی مدت میں مکمل ہو جائینگے اس دوران باقی دو یونٹوں پر بھی کام جاری رہے گا۔محمد شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ اگر میں بجلی کا بحران دو تین سال میں کنٹرول نہ کر سکا تو پھر آپ میرا نام بدل دیں۔ اس پر شہباز شریف کے مخالفوں نے شہباز شریف کے بہت سے نئے نئے نام سوچ رکھے تھے لیکن آج مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی تقریب کے بعد مخالفوں کی امیدوں پر اسی طرح اوس پڑ گئی ہے جیسے صدارتی امیدوار رضا ربانی نے پیپلز پارٹی کے دشمنوں کا مشورہ قبول کرتے ہوئے صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ دلچسپ بات ہے کہ اس نے انتخابات سے بھاگنے کے جتنے بھی دلائل دئیے وہ عذر گناہ بدتر از گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔ صدارتی انتخابات میں عوام نے تو ووٹ نہیں ڈالنے، صرف قومی، صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ نے ووٹ دینے ہیں اور وہاں ووٹوں کی گنتی اور صدارتی انتخابات کے نتائج دیواروں پر لکھے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ نوشتہ دیوار تو یہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن چار سو سے زیادہ ووٹوں سے جیت رہی ہے جبکہ رضا ربانی اگر ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا لیتے تو وہ دو سو ووٹ بھی پورے نہیں کر سکتے تھے۔ خواہ مخواہ اپنی عزت بچانے کی کوشش کرنا کہ دو دنوں میں چاروں صوبوں کا دورہ کیسے کر سکتا ہوں۔ کیا ان کا خیال ہے کہ چاروں صوبوں کے دورے سے پاکستان مسلم لیگ ن کے ممبران نے ان سے متاثر ہو کر رضا ربانی کو ووٹ دے دینا تھا۔اصل بات کچھ اور ہے جس کی طرف مبصرین نے بھی توجہ نہیں دی۔ صدارتی انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہوتے ہیں۔ جب رائے شماری کے بعد نتائج سامنے آنے تھے تو رضا ربانی سمیت پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے بھی حیران رہ جانا تھا کہ خود ان کی پارٹی کے ممبران نے بھی انہیں پورے ووٹ نہیں دئیے۔ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے اس لئے پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کے پیچھے اصل راز یہی ہے کہ وہ میڈیا میں اپنی مزید جگ ہنسائی نہیں چاہتے تھے۔بات چل رہی تھی بجلی کے ہونیوالے نئے MOU پر جس سے صرف دو سال میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہو جائیگا لیکن یہاں وفاقی حکومت کو بھی شاباش دینی ضروری ہے جس نے گردشی قرضوں کا خاتمہ شیڈول سے پہلے کرکے ایک حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا ہے۔ اگرچہ حکومت مخالف عناصر ملتان جیسی شرارت کسی دوسرے شہر میں بھی کر سکتے ہیں اس سے محفوظ رہنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ تمام شہروں میں لوڈشیڈنگ کے شیڈول کی مانیٹرنگ کی جائے اور یاد آیا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف مکمل بجلی لانے سے پہلے ٹرانسفارمرز کی تعداد میں اضافہ کرنے کے علاوہ پرانے ٹرانسفارمرز تبدیل کرا دیں۔ اسی طرح بجلی کی کمزور تاروں کی جگہ ہر قسم کا لوڈ برداشت کرنیوالی مضبوط تاریں لگائی جائیں۔ محکمہ بجلی کے ایک ذمہ دار افسر نے انکشاف کیا ہے کہ اگر لوڈشیڈنگ مکمل ختم ہو گئی تو موجودہ ٹرانسفارمرز پوری بجلی کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں اس لئے اوورلوڈنگ کی وجہ سے بجلی کا ایک نیا بحران جنم لے سکتا ہے اس لئے فوری طور پر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور چین سے ٹرانسفارمرز کی سپلائی کا معاہدہ کرنا بھی ضروری ہے۔