قاہرہ (نوائے وقت نیوز + رائٹر + نیٹ نیوز) قاہرہ میں معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کے ایک ماہ سے جاری دھرنے کو طاقت کے بل پر ختم کرنے کی کوشش میں 120 افراد جاں بحق اور ہزاروں افراد زخمی ہوگئے۔ مسجد رابعہ بصری کے قریب اخوان المسلمون کے حامیوں کے دھرنے پر سکیورٹی فورسز نے دھاوا بھول کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس سے 120 افراد جاںبحق اور ہزاروں زخمی ہوگئے۔ اخوان المسلمون کی ویب سائٹ پر جاری بیان کے مطابق مرنیوالوں کی تعداد 120 اور زخمیوں کی تعداد 4500 ہے جبکہ آزاد ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق زخمیوں کی تعداد 1500 ہے۔ مصری حکام کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 70 ہے، 262 زخمی ہوئے۔ اخوان المسلمون کے ذرائع نے کہا ہے کہ کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے جس سے ہلاکتوں میں اضافے کے ا مکانات ہیں۔ ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی کہ قریبی ہسپتالوں میں مزید جگہ نہیں تھی، ہسپتالوںکے دوازے بند کردئیے گئے۔ ذرائع کے مطابق زیادہ تر لوگوں کو سر، گردن اور سینوں پر گولیاں لگیں۔ رابعہ العدویہ کے اردگرد فون اور انٹرنیٹ کی سروس بند کردی گئی ہے تاکہ اس گھناو¿نے قتل عام کو کوئی میڈیا نہ دکھا سکے۔ مصری پولیس نے اخوان المسلمون پر جھڑپوں کا الزام عائد کیا ہے۔ واضح رہے یہ شہادتیں صبح کے وقت وزیر داخلہ محمد ابراہیم کے بیان کے بعد ہوئیں جس میں اس نے کہا تھا کہ اگر مظاہرین احتجاج سے باز نہ آئے تو وہ قانونی طریقے سے مظاہرے ختم کریں گے۔ اخوان المسلمون نے کہا ہے کہ فوج باقاعدہ شرپسندوں کیساتھ ملکر حملے کر رہے ہیں۔ مسجد رابعہ بصری کے باہر جمع مظاہرین میں مردوں کے ساتھ خواتین کی بڑی تعداد بھی امدادی کارراوئیوں میں شامل ہے۔ بی بی سی کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے، قاہرہ میں ربا الاداویہ مسجد کے قریب جنگ جاری ہے، سڑکیں خون آلود ہیں۔ اخوان المسلمون کے ترجمان جہاد الہداد نے مغربی خبر اےجنسی کو بتایا کہ قاہرہ میں پیش آنے والے اس واقعہ میں بڑی تعداد مےں لوگ زخمی ہوئے۔ معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں نے رات بھر دارالحکومت میں مظاہرے جاری رکھے۔ اخوان المسلمین نے کہا ہے کہ ان کے سینکڑوں حامی مصری فوج کے ساتھ تصادم میں زخمی ہو گئے ہیں۔ عرب ٹی وی کے مطابق سکندریہ میں مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان جھڑپوں میں 10 افراد ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔ فوج سے اظہار یکجہتی کےلئے قاہرہ کے تحریر سکوائر پر ایک بار پھر لاکھوں افراد نے پڑاﺅ ڈال لیا۔ مصر کے عبوری صدر عدلی منصور نے معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کو مشورہ دیتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ ان کے زیر حراست حامیوں کو سزا نہیں دی جائیگی۔ نجی ٹی وی سے ٹیلیفون پر انٹرویو میں عبوری صدر نے مرسی کے حامیوں سے کہا کہ انہیں ان لوگوں کا فیصلہ قبول کرنا چاہئے جنہوں نے معزول صدر کی حکمرانی کی بجائے ایک مختلف راستہ منتخب کیا۔ انہوں نے کہا کہ اخوان المسلمون کے حامیوں کی رائے کا احترام کرتے ہیں لیکن جو فیصلہ ہو چکا اسے بدلنا ممکن نہیں۔ ادھراخوان المسلمون کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع نے کسی خفیہ مقام سے ارکان جماعت کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ آرمی چیف جنرل عبدالفتاح السیسی کے ہاتھوں منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی برطرفی سنگین جرم ہے ہے۔ انہوں نے ارکان جماعت اور اخوان المسلمون کے حامیوں پر زور دیا کہ وہ ملک میں منتخب حکومت پر شب خون مارنے اور فوجی آمریت کیخلاف پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اطلاعات کے مطابق محمد مرسی کو بھی سابق صدر حسنی مبارک والی جیل میں رکھا جائیگا۔ دیگر اطلاعات کے مطابق فوج کے سربراہ جنرل السیسی کی جانب سے اپنے حامیوں سے مظاہروں کی اپیل کے بعد معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں اور فوج کے حامی شہریوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور ان میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق قاہرہ میں ربا الداویہ مسجد کے قریب مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان شدید جھڑپوں کی وجہ سے علاقہ میدان جنگ بن گیا اور سڑکیں خون آلود ہوگئیں ۔ اخوان المسلمین نے کہا ہے کہ ان جھڑپوں کے دوران انکے سینکڑوں کارکن زخمی ہو گئے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی منور حسن نے قاہرہ میں صدر مرسی کے حامیوں پر فوج اور شر پسندوں کی فائرنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اپنے بیان میں منور حسن نے کہا ہے کہ مصری عوام جمہوریت کی بحالی کیلئے پرامن مظاہرے کر رہے ہیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔ آج کا قتل عام مصری فوج کے سربراہ جنرل سیسی کے اس بیان کا منطقی نتیجہ ہے جس میں انہوں نے فوج کو سڑکوں پر آکر مخالفین کو کچل دینے کا مینڈیٹ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ صدر مرسی کے حامیوں پر فوج کی فائرنگ اور قتل عام کا یہ پہلا واقعہ نہیں، پہلے بھی یہ افسوسناک واقعات ہوئے ہیں جن میں درجنوں افراد شہید ہوئے۔ مغربی حکومتیں، عالمی ادارے اور حقوق انسانی کی تنظیمیں اس قتلِ عام پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ کیا مسلمان اور جمہوریت پسند عوام کو اس دنیا میں جینے کا حق نہیں ہے؟ منور حسن نے منتخب صدر مرسی کے حامیوں کے مکمل طور پر پرامن رہنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی پرامن جدوجہد یقیناً رنگ لائے گی۔ انہوں نے جنرل سیسی اور ان کے حامیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے پیشرو حکمرانوں کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے صدر مرسی اور دیگر گرفتار سیاسی رہنما¶ں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ مصری عدالت کی جانب سے حماس کے ساتھ تعلقات کے الزام میں مرسی کو 15 روزہ حراست میں رکھنے کے فیصلے کی فلسطینیوں نے شدید مذمت کی ہے۔ انہیں اس پر سخت اشتعال ہے۔ یورپی یونین اور برطانیہ نے مظاہرین پر وحشیانہ تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔ جامع الازہر کے سربراہ احمد لطیف نے سینکڑوں افراد کی ہلاکتوں کی شدید مذمت کی اور اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔