بالآخر وہ گھڑی آ گئی جس کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ سب سے بڑے پاکستانی کو قبر میں اتار دیا گیا۔وہ اٹھارہ کروڑ افراد میں سب سے منفرد اور ممتاز تھا۔ اس لئے نہیں کہ وہ صاحبِ اقتدار تھا یا اس کے پاس کوئی بڑا عہدہ تھا۔ اس کے پاس تو کوئی عہدہ نہیں تھا۔ بڑے سے بڑا عہدہ اس کی ذات سے ہیچ تھا۔ مگروہ بلاشبہ سب سے بڑا پاکستانی تھااور کروڑوں پر بھاری تھا۔
حکومتیں اس سے خوفزدہ رہتی تھیں۔ اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے۔ اور حکمران اپنی غلط کاریوں کے باعث اس سے ڈرتے تھے۔ غیروں کے کہنے پر یا عالمی طاقتوں کے زیرِ اثر حکمران، پاکستان کے مفاد کے منافی کئی اقدامات کرنا چاہتے تھے مگر نہ کرسکے کیونکہ مجید نظامی زندہ تھا اور نوائے وقت موجود تھا۔ انفرادی سطح پر بے شک وہ پاکستان کا سب سے بڑا محافظ تھا۔ وہ مردِدرویش جس کو حق نے دئیے تھے اندازِ خسروانہ۔ مخالفتوں اور سازشوں کی آندھیوں میں بھی پوری سج دھج سے اپنا چراغ جلاتا رہا۔ کئی روایتی سے جملے کسی خاص شخصیت کے ساتھ منسلک ہوکر زندہ وجاوید ہوجاتے ہیں۔ نظامی صاحب کو جب آبروئے صحافت کہا جاتا تھا تو کہنے والا دل سے سمجھتا تھا کہ وہ ذرا بھی مبالغہ نہیں کررہا۔ بڑے سینئر صحافی خود کہتے تھے کہ مجید نظامی کی ذات نے صحافت کو عزّت، وقار اور اعتبار بخشا ہے۔ سب مانتے تھے کہ قافلہ ء صحافت کے وہی امام ہیں اور وہی سپہ سالار!جابر ڈکٹیٹروں کے دربار میں جہاں سب ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے، کچھ قصیدے پڑھ رہے ہوتے تھے، کئی آمروں کے جاہ وجلال سے کانپ رہے ہوتے تھے، بہت سے اپنے مفادات واغراض کی عرضیاں پیش کررہے ہوتے تھے، اس ماحول میں بھی جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق بلندہوتا تھا، ڈکٹیٹروں کو للکارا جاتا تھا، آمروں کو کھری کھری سنائی جاتی تھیں، ایک آواز ایسی گونجتی تھی کہ ماحول بدل جاتا تھا، آمر پریشان ہوجاتے تھے اور سہمے ہوئے مدیروں میں جان پڑ جاتی تھی مگر وہ ایک ہی آواز تھی جو آج خاموش ہوگئی ہے۔ مجھے ان سے اس لئے عقیدت تھی کہ انہیں پاکستان سے عشق تھااور وہ اس کیلئے لڑنے مرنے کیلئے تیاررہتے تھے۔ سیاست میں نظامی صاحب صرف دو شخصیات کے پیروکار اور مرید تھے کوئی تیسرا ان کی نظروں میں جچا ہی نہیں۔ اقبالؒ اور محمد علی جناحؒ کے بعد کوئی جچتا بھی کیسے!!ان کی محبت، عشق، ہدف اور منزل صرف پاکستان تھا۔ان کے روئیں روئیں اور رگ رگ میں پاکستان کی محبت رچی بسی تھی۔ پاکستان پر کوئی مشکل گھڑی آتی، کوئی تشویش کی صورتِ حال پیدا ہوتی تو ملک سے محبت کرنے والے نظامی صاحب کے پاس پہنچتے اپنی تشویش ان کے ساتھ shareکرتے اور ان سے حوصلہ اور امید افزاء پیغام لے کر لَوٹتے۔
میری نظامی صاحب کے ساتھ برسوں پرانی نیاز مندی تھی۔ مجھ سے بہت شفقت کرتے تھے۔ میں ان سے بے شمار مرتبہ ان کی رہائش گاہ پر ملا۔ کئی بار میں اور شہباز شیخ اکٹھّے ملے۔ ہربار ان کی شفقت اور محبت کے نئے رنگ وروپ نظر آئے۔ لوگ کہتے تھے مگر مجھے ان کے ہاں تکبّر نظر نہیں آیا، ہاں اقبالؒ اور قائد اعظمؒ کے سپاہی مجید نظامی میں خودی اور خود داری کی فراوانی تھی اور یہ اس کا حق تھا۔ ان کے ساتھ میں نے کئی بار تقاریب میں شرکت کی ۔ کئی بارمیری تقریر کے بعد نظامی صاحب کی طرف سے خصوصی تحسین اور حوصلہ افزائی ہوتی تھی مگر ایک تقریب کبھی نہیں بھول سکتا ۔ سکولوں کے طلباء وطالبات کو تحریکِ پاکستان کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کرنے اور قائدؒ اور اقبالؒ کے نظریات وتعلیمات سے روشناس کرانے کیلئے وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں نظریاتی سمر سکول کا انعقاد کیا کرتے تھے جہاں بچوں سے خطاب کیلئے مختلف شخصیات کو بلایا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ ان کی طرف سے مجھے طلباء وطالبات سے خطاب کرنے کی دعوت ملی۔ اب یہ دعوت میرے لئے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ میں ان دنوں گوجرانوالہ میں ڈی آئی جی تھا۔ مصروفیات بہت ہوتی تھیں مگر نظامی صاحب کے حکم کی بجاآوری میں وقت ِمقررّہ سے پہلے پہنچ گیا۔ منتظمین کی زبانی مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ "مجید نظامی صاحب خود تشریف لائیں گے۔ کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ میرے آنے تک تقریب شروع نہ کریں"۔ عین وقت پر مجید نظامی صاحب، ڈاکٹر رفیق احمد صاحب کے ہمراہ تشریف لے آئے اور ہم اکٹھے ہال میں چلے گئے۔بڑا روح پرور ماحول تھا۔ ہال پہلے قومی ترانے اور ملّی نغموں سے گونجتا رہا۔ پھر مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے سامعین کی ذہنی سطح کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سادہ مگر پرجوش الفاظ میں پاکستان اور بانیانِ پاکستان کی باتیں کیں۔ بچے بڑے جوش وخروش سے تالیاں بجاتے رہے۔ میں روسٹرم سے نیچے اترا تو نظامی صاحب کھڑے ہوگئے اور انہوں نے آگے بڑھ کر مجھے تھپکی دیتے ہوئے کہا"آپ کا motivationalخطاب سن کر دل بڑا خوش ہوا ہے"۔ پھر انہوں نے جیب سے بٹوہ نکالا اور اس میں سے ایک ہزار روپے کا نوٹ نکال کر مجھے دیتے ہوئے کہا "یہ میری طرف سے آپ کیلئے انعام ہے اسے قبول کریں"میں نے کہا" یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ نوٹ میرے لئے ہمیشہ قیمتی اثاثے کی حیثیت سے محفوظ رہے گا"۔چند ماہ پہلے ان کی بیماری کی خبر سنی تو ڈاکٹرز ہسپتال پہنچا، دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ صرف دو روز پہلے میں نے ایک عزیز کو فون کیا کہ پتہ کرکے بتاؤ نظامی صاحب کس ہسپتال میں داخل ہیں؟" جواب سے پہلے ہی خبر ملی گئی کہ خالقِ کائنات نے انہیں اپنے پاس بلا لیا ہے اوربلانے کیلئے اسی دن کا انتخاب کیا ہے جس دن پاکستان وجود میں آیا تھا۔ اِنّا ِﷲِ وَاِنّا الیہِ رَاجَعوُن۔ مجھے نہیں معلوم اعلان ہوا ہے یانہیں مگر آج سب سے بڑے پاکستانی کی وفات پر پاکستان کا پرچم سرنگوں رہنا چاہیے اور پورے پاکستان میں سوگ کا اعلان ہونا چاہیے۔ملک میں نہ کوئی اس کا نعم البدل ہے اور نہ اس کا خلا پورا ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ نظامی صاحب کے اٹھ جانے سے بلاشبہ پاکستانیت کے قلعے کی ایک مضبوط دیوار گرگئی ہے۔ یہ وہ دیوارتھی جس کے گرنے کا ملک کے دشمنوں کو کئی سالوں سے انتظار تھا۔ اب پاکستان سے محبت کرنے والوں کوپہلے سے کہیں زیادہ چوکس رہنا ہوگااور اس کے محافظوں کو ہمہ وقت جاگتے رہنا ہوگا۔ کائناتوں کے خالق اور مالک سے دعا ہے کہ نظامی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ جگہ عطا فرمائیں اور پاکستان کی حفاظت فرمائیں اور اسے قیامت تک قائم اور دائم رکھیں۔ آمین۔
سب سے بڑا پاکستانی
Jul 28, 2014