صحافت کا نیئر تاباں غروب ہوگیا

Jul 28, 2014

ریاض چودھری

 مجید نظامی 3اپریل1928میں سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول سانگلہ ہل سے حاصل کی۔ ایف اے اسلامیہ کالج لاہور سے جبکہ گریجوایشن گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔مجید نظامی نے ایم اے سیاسیات کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔اسلامیہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے سیاست میں متحرک رہے اور تحریک پاکستان کی عملی جدوجہد میں حصہ لیا۔تحریک پاکستان میں انکی اہم خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے انہیں”مجاہد تحریک پاکستان “کا اعزاز دیااور انہیں اعزازی تلوار بھی پیش کی گئی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجید نظامی نے عملی طور پر صحافت میں قدم رکھا اور اپنے برادر بزرگ حمید نظامی کے اخبارروزنامہ” نوائے وقت “کے ادارتی سیکشن سے وابستہ ہو گئے اور اپنی تمام زندگی” نوائے وقت“کو صحافت کی بلندیوں پر لے جانے کے لئے سرگرم رہے۔ قیام پاکستان سے قبل بھی کئی اخبارات تھے مگر نوائے وقت کے اجراءکی تاریخ قراردادپاکستان پیش کئے جانے کے روز ہے اور 23مارچ 1940ءکو نوائے وقت کا اجراءقائداعظم محمد علی جناح کے حکم پر کیا گیا اور یہ اخبار آج تک اسی نظریئے کے تحفظ کے لئے وقف ہے اس کے علاوہ کوئی اخبار ایسا نہیں جو نظریاتی ہو۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے ہی پہلی بار محترمہ فاطمہ جناح کو ”مادر ملت“ کا خطاب دیا اور ایوب خان کے دور حکومت میں فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور اس کی پاداش میں کئی مظالم و پابندیوں کے باوجود اپنے راستے پر کاربند رہے۔
”نوائے وقت“ کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کو آزادی صحافت کیلئے عظیم خدمات انجام دینے پر آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی نے ”لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ“ پیش کیا۔ صحافت کی آزادی کے تحفظ کیلئے سیاسی اور مارشل لاءحکومتوں کے تمام ادوار میں ثابت قدم رہنا اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روایت کو اپنے عمل سے مضبوط کرنا مجید نظامی صاحب کا بلاشبہ عظیم کارنامہ ہے لیکن ان کا اس سے بھی عظیم تر کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ا±س مشن کی تکمیل کیلئے اپنی تمام صلاحتیں وقف کر دیں جو قائداعظم محمد علی جناح نے انکے برادر بزرگ جناب حمید نظامی کو مارچ 1940 میں ”نوائے وقت“ کے اجراءکے وقت تفویض کیا تھا۔
 مجید نظامی نے اسلام اور پاکستان کیساتھ تصورات اقبال اور قائداعظم بلکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے بھی سیاسی کردار اور عمل کو فوقیت دی اور انکی تبلیغ و تشریح کیلئے ”نوائے وقت“ کو مختص کر دیا۔ صحافت اب انڈسٹری بن چکی ہے، بہت سے اخبارات نے جدید صحافت کے صنعتی تقاضوں کو قبول کیا ہے لیکن مجید نظامی صاحب کا ”نوائے وقت“ اس نظریاتی جہت پر قائم رہا جو ”نوائے وقت“ کی عنان ادارت 1962ءمیں سنبھالتے وقت انہیں جناب حمید نظامی مرحوم سے ملی تھی۔ حمید نظامی صاحب کو ایوبی مارشل لاءکی گھٹن نے یہ احساس دلایا تھا کہ ان کا پیمانہ عمر کسی بھی وقت لبریز ہو سکتا ہے چنانچہ انہوں نے مجید نظامی صاحب کو اپنی زندگی میں اپنا جانشین اور نوائے وقت کا ایڈیٹر مقرر کر دیا تھا۔ اس وقت انگلستان پلٹ مجید نظامی کی عمر صرف 34 برس تھی لیکن انہوں نے ایوب خان کے مارشل لاءکا مقابلہ پوری جوانمردی سے کیا اور نوائے وقت کے قارئین کو یقین دلا دیا کہ اسکی نظریاتی جہت قائم رہتی ہے۔
اب مجید نظامی کی عملی صحافت کے گزشتہ 60 سال پر نظر ڈالیں تو وہ حکمرانوں کے کڑے نقاد اور بنیادی طور پر ”حزب اختلاف“ کے فرد فرید نظر آتے ہیں جس کا بنیادی مقصد پاکستان اور نظریہ پاکستان کا تحفظ ہے۔ پورے عالم اسلام کے مسائل پر مثبت زاویہ نظر پیش کرنا اور باطل کی قوتوں کو جرات اور دلیری سے نشان زد کرنا بھی نوائے وقت کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ پاک بھارت تنازعات میں انہوں نے ہمیشہ دلائل اور جرات سے بات کی اور حکمرانوں کی جانب سے بھارت کو مناسب جواب نہ دیئے جانے پر وہ یہ بھی کہنے پر مجبور ہوئے کہ ”ایٹم بم ہم نے کس کے لئے بنایا ہے؟“۔
عملی صحافت میں مجید نظامی صاحب کی انفرادی عطا یہ ہے کہ انہوں نے نوائے وقت کو ایک بااثر روزنامے کی حیثیت میں قائم رکھتے ہوئے انگریزی اخبار ”دی نیشن“ خاندان کا رسالہ ”فیملی میگزین“ اور بچوں کا رسالہ ”پھول“ جاری کیا‘ ندائے ملت جو ان کا ڈیلی اخبار تھا‘ جب 1970ءمیں ان کیخلاف ک±وڈِٹا ہوا‘ اسے ویکلی بنا دیا تاکہ ندائے ملت کا نام زندہ رہے۔آج کے نوائے وقت کی مالک بھی ندائے ملت لمیٹڈہے اور آج نوائے وقت گروپ صحافت کی امپائر بنا جس میں وقت نیوز ٹی وی چینل بھی شامل ہے ۔ ”نوائے وقت فنڈ“ نے کشمیری عوام‘ زلزلہ اور سیلاب زدگان کے علاوہ مشرقی پاکستان میں 1971ءکے بعد رہ جانیوالے (محصورین پاکستان) پاکستانیوں کی جس طرح مالی مدد کی ہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔مجید نظامی ایک عظیم صحافی‘ تحریک پاکستان کے عظیم مجاہد‘دانشور‘ پاکستان کے نظریاتی محافظ‘ کشمیر کاز کے سب سے بڑے حامی‘ بنگلہ دیش میں مقیم بہاریوں سمیت اسلام اور پاکستان کے عظیم مجاہد تھے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی طرح کا سچا پاکستانی اب ہم میں نہیں اور ان کا نعم البدل شاید ناممکن ہے۔
رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں وفات پاجانا بلاشبہ عظیم سعادت ہے۔ اللہ رب العزت سے قوی امید ہے کہ وہ ذات اپنی صفت رحمت کے شایان شان تمام مرحومین کے ساتھ خصوصی رحم و کرم والا فرمائے گی۔اللہ تعالیٰ مرحوم کی بے حساب مغفرت فرمائے، جنت الفردوس کے اعلی درجات نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)

مزیدخبریں