غالب نے درست کہا تھا ”سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں“ بے شک یہ اعزاز ربّ العزت کسی کسی کو عطا فرماتا ہے۔ ایسے لوگ گلزار ہستی میں بھی لالہ و گل کی مانند ہوتے ہیں اور دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ان کی یادیں دل و دماغ کو معطر کرتی ہیں ایسے ہی خوش قسمت لوگوں میں جناب مجید نظامی بھی شامل ہیں۔ سفید بال بڑی بڑی غلافی آنکھیں سرخ رومانند گلاب باوقار قدو قامت دور سے دیکھیں تو یوں لگا تھا جیسے موسم سرما میں بلند و بالا سرخ چنار پر برف پڑی ہو۔ مجید نظامی صاحب اپنی ذات میں بھی بلند و بالا گھنے سایہ دار چنار کی مانند تھے جس کے سائے میں بے شمار لوگ آرام پاتے اور زندگی کا لطف اٹھاتے تھے۔ نئے صحافی ہوں یا پرانے، سب کیلئے ان کی ذات ایک افسانوی کردار کی مانند رہی ہے۔ ان کے قلم کی پیروی کی خواہش دلوں میں ہمیشہ مچلتی رہے گی۔ کم گو بامعنی الفاظ ادا کرنے والے اس پیکر خاکی کے صحافت کے میدان میں چھوڑے گئے نقوش تادیر آنے والے قلمکاروں اور خبروں کی دنیا میں رہنے والوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ ان کے قلم سے نکلنے والے حرف بھی ان کے منہ سے نکلنے والے جملوں کی طرح طرحدار اور کاٹ دار ہوتے، ایک ایک لفظ سینکڑوں مضامین پر بھاری پڑتا تھا۔ سنجیدہ اداریہ ہو یا فکائیہ سرراہے ان کا ایک لفظ مضمون کے معنی بدل دیتا، دل و دماغ کی گہرائیوں میں اُتر جاتا۔ 17 برس ان کے زیر سایہ نوائے وقت نیوز روم میں کام کرنا باعث فخر اور 3 برس سے ان کی قربت میں شعبہ ادارت میں کام کرتے ”سر راہے“ لکھتے روزانہ ان کے ساتھ ملنا، ان سے ہدایت لینا سرمایہ افتخار رہے گا۔ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے پتہ چلا کہ شجر سایہ دار کسے کہتے ہیں۔
انکے قلم سے لکھا ہوا ایک لفظ ”سرراہے“ کے پورے مفہوم کو یوں بدلتا کہ پوری عبارت نئی معلوم ہوتی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ انکے نام سے منسوب ہو جاتی۔ یہی حال ان کی زبان کا تھا۔ دوران گفتگو کبھی ٹھہر کر شرارتی لہجے میں کوئی جملہ یا لفظ ایسا ادا کرتے کہ پوری محفل کشتِ زعفران بن جاتی اور ہمارے چودہ طبق روشن ہو جاتے۔ اس موقع پر ان کی آنکھوں کی چمک دیدنی ہوتی اور یاقوتی لبوں پر معصومانہ مسکراہٹ بکھر جاتی۔ ایسے سادہ دل اور درویش صفت اب کہاں ملیں گے جن سے ہم جیسے ہزاروں قلم پکڑنے والوں نے لکھنا سیکھا۔ حالات کیسے بھی ہوں مجید نظامی صاحب نے اپنے انداز صحافت کی وضع نہ بدلی۔ وہی خُوبُو برقرار رکھی، جس میں صحافت کی شان اور قلم کی آبرو برقرار رہی۔ محمد علی جوہر، ظفر علی خان اور شورش کاشمیری تک جو قلم کا معیار تھا، فکر کا انداز تھا وہ ان کی ذات تنہا میں اسی اس آن بان شان سے برقرار رہا۔ جو آج ایک مکتب فکر کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ وہ صحافت کی دنیا میں ایک علیحدہ منفرد مکتب فکر اور انداز کے بانی تھے، سنسنی خیزی اور چمک دمک کی دنیا میں رہنے والے بھی اس کی طرف دیکھتے اور رہنمائی حاصل کرتے۔ وہ نہایت سنجیدگی اور متانت سے اپنے قلم سے تلوار کا کام لیتے۔ جابر سلطان ہوں یا جمہوری تماشہ تمام حالات وہ یکساں انداز میں آزاد صحافت کی پاسداری کرتے رہے۔ زردار ہوں یا شب بیدار حکمران، انہوں نے سب کو حب الوطنی اور خدمت عوام کا درس دیا۔ کئی نظریاتی طوفان آئے، صحافتی میدان کے بڑے بڑے ستون اس کی زد میں آ کر بہہ گئے۔ عالیشان عمارات کو بے پناہ آمدنی کو ہی اصل صحافت سمجھا گیا۔ مگر وطن اور عوام کی خدمت کیلئے جو قلم جناب مجید نظامی نے اٹھایا، وہ 65 برس تک مسلسل اپنا حق ادا کرتا رہا، نہ بکا نہ جھکا نہ اس کی گرفت میں لرزش آئی۔ تاحیات اصولوں کی پاسداری کرنا اگر کسی نے سیکھنی ہو تو وہ جناب مجید نظامی سے ہی سیکھ سکتا ہے۔ قلم کی حرمت اگر کسی نے دیکھنی ہو تو وہ مجید نظامی کی طرف سے دیکھ سکتا ہے۔ صحافت اگر کرنی ہو پھر نقشِ مجید پر ہی چلنا ہو گا کہ اس کے سوا استقامت اور پامردی شاید ہی کہیں اور نظر آئے گی۔ وہ حق گوئی اور استقامت کا ایک استعارہ ہیں جو صحافت کے طلبا و طالبات کیلئے صحافیوں کیلئے خواہ وہ الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہوں یا پرنٹڈ سے، پاکستان سے محبت کرنے والوں کیلئے، عوام کی خدمت کا عزم رکھنے والوں کیلئے اور سب سے بڑھ کر وطن سے محبت کرنے والوں کیلئے تاحیات نمونہ رہیں گے۔
وہ حقیقی معنوں میں قائداعظم کے اصولوں سچ پیروکار اور اقبال کے فکر و فلسفہ کا حقیقی پیکر تھے۔ اول تا آخر جو بانکپن ان کے قلم میں تھا جو کھنک انکے لہجے میں تھی۔ وہ برقرار رہی، کہیں بھی اس میں سرزنش نہ آئی۔ بالوں میں سفیدی آئی تو وہ بھی یوں جیسے بلند و بالا سرخ چنار پر پڑی برف، جو اس کے حسن میں وقار میں اضافہ کرتی ہے۔ انہوں نے حقیقت میں فکر و خیال کو اور زبان و بیان کو آزادی کے اس نئے مفہوم سے روشناس کرایا جس کی بدولت آج پاکستان میں میڈیا آزاد ہے۔ قلم آزاد ہے اور جب تک یہ آزادی برقرار رہے۔ حریت فکر کے اس امام کو صفحہ¿ قرطاس پر لکھنے والا ہر قلم خراج عقیدت پیش کرتا رہے گا۔ آج ایک کشمیری کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آج حقیقی معنوں میں کشمیر کی آزادی کی تحریک یتیم ہو گئی ہے اور ہمارے سروں پر تحفظ کی چھتری ہٹ گئی اور ہمارا مضبوط پشتبان اب کوئی نہیں رہا۔ کاش وہ اپنی آنکھوں سے کشمیر کی آزادی کا خواب حقیقیت میں بدلتے دیکھنے جو ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ جس کیلئے وہ 65 برس سے قلمی جہاد کرتے رہے۔ ایسے ہی لوگوں کیلئے شاعر کشمیر نے کہا تھا
”کریو منز جگرس جاءچھم نو مائی شانی چا نئی“
ترجمہ: (اے میرے محبوب تیری محبت میرے دل میں ہے۔ یہ بھی بھلا کوئی بھولنے والی چیز ہے۔)