کون جیتا کون ہارا؟

ایک شخص کسی کے ہاں مہمان گیا تو میزبان نے پوچھا ”ٹھنڈا پیو گئے یا گرم؟’“ مہمان نے جواب دیا ” بھائی صاحب ٹھنڈا ہی پلا دیں“ میزبان بولا ”ٹھنڈا سٹیل کے گلاس میں لیں گے یا شیشے کے گلاس میں؟“ تو مہمان نے جواب دیا کہ ”شیشے کے گلاس میں دیدیں“ میزبان نے پھر پوچھا ”گلاس سادہ ہو یا پھولوں والا؟“ اکتائے ہوئے مہمان نے جواباً کہا کہ ”چلو پھولوں والا ہی ہو جائے“ تو میزبان نے برجستہ کہا ”بھائی صاحب پھولوں والا گلاس تو ہمارے گھر نہیں ہے۔“ اس طرح مہمان نے ٹھنڈ اپینے کا موقع گنوا دیا۔ قارئین! آج کل کچھ یہی حالت ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور انکی سیاست کی ہے۔ موصوف پہلے تو کراچی کی بدامنی میں کسی دوسرے فریق کو حصے دار بنانے کیلئے بھی تیار نہیں تھے۔ کراچی اور شہری سندھ کے علاقوں میں پنجابی‘ پٹھان اور ٹی ٹی پی کی حصہ داری کو وہ اپنے لئے چیلنج سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے الطاف بھائی نے گزشتہ دو سال کے دوران باربار پاک فوج کو کراچی میں مداخلت دعوت دی حتیٰ کہ متعدد دفعہ برملا طورپر کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا واضح مطالبہ بھی کیا‘ پاک فوج کی حمایت میں ایم کیو ایم کی جانب سے ریلیاں‘ جلوس نکالے اور یوم تشکر تک منائے گئے مگر جب عسکری قیادت نے کراچی کے مسائل کو غیر جانبدارانہ نقطہ نظر سے دیکھا تو انہیں اس بحر ظلمات میں صرف ٹی ٹی پی کی دہشتگردی نظر نہ آئی بلکہ مختلف لسانی‘ مسلکی اور سیاسی گروہوں کی جانب سے کراچی میں جو کریمنل ونگز کام کر رہے تھے‘ انکا بھیانک کردار بھی سامنے آیا۔
یہ بھی پتہ چلا کہ کراچی کی بدامنی اور بگڑتی صورتحال میں کچھ غیرملکی ادارے اور ایجنسیاں بھی ملوث ہیں۔ خصوصاً ”را“ ’موساد“ ”خاد“ اور ”سی آئی اے“ سمیت مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے کچھ ممالک اور ریاستوں کی ایجنسیاں بھی پاکستان کو غیرمستحکم کرنے میں سرگرم پائی گئیں جبکہ منی لانڈرنگ اور معاشی دہشت گردی کے بڑے بڑے پراجیکٹس سے بھی پردہ اٹھا۔ جنرل راحیل شریف نے بغیر توقف کے فوج کے ذیلی ادارے رینجرز کو یہ ٹارگٹ دیا کہ مجھے کرائم سے پاک کراچی چاہئے جس پر الطاف بھائی اور آصف علی زرداری جیسے مافیاز تلملا اٹھے۔ پہلے تو دونوں صاحبان کی طرف سے پاک فوج اور اسکے افسران کو دھمکیا ں دی گئیں۔ کبھی سندھ کارڈ کھیلنے اور کبھی مہاجر پتا کھیلنے کے اشارے دیئے گئے مگر پاک رینجرز نے بلوں میں چھپے ہوئے جرائم پیشہ لوگوں کے گرد گھیرا تنگ کیا تو یہ بڑھکیں لگانے والے ترلے منتوں پر اتر آئے۔ کبھی بھوک ہڑتال اور خودکشی کی دھمکیاں اور کبھی ملک بند کرا دینے کی دھمکی دی گئی۔ میرے اپنے تخمینہ کیمطابق الطاف بھائی کم از کم دو درجن بار مستعفی ہونے کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ متعدد دفعہ اپنی ہی بنائی ہوئی پارٹی کو برخاست کرنے کا بھی اعلان کر چکے ہیں جبکہ آصف زرداری اپنی آدھی سے زیادہ کرپٹ ٹیم کے ساتھ عملی طورپر ملک سے بھاگ چکے ہیں اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
قارئین! رواں ہفتے ملکی سیاست میں ایک اور بھونچال اس وقت گزر گیا جب ملک کی اعلیٰ عدلیہ پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے چھیاسی روزہ سماعت کے بعد حسب توقع عمران خان کو چاروں شانے چت کر دیا اور اسی روز وزیراعظم پاکستان جو دیار غیر میں رہنے کے عادی ہیں اور ملک میں گرمی سے ہزارں ہلاکتیں ہوں‘ سیلاب سے تباہی ہو‘ ارض وطن میں تمام مساجد اور عیدگاہوں میں پانی بھر جائے اور وزیراعظم اپنے خاندان اور لا¶لشکرکے ساتھ عید منانے کیلئے بیرون ملک چلے جائیں اور انکے پاس فقط ایک منٹ بھی نہ ہو کہ وہ اپنے ہم وطنوں سے اظہارہمدردی کے چند بول بول سکیں اور گزشتہ سال سانحہ ماڈل اور سانحہ ڈی چوک کے 32 شہداءپر بنائی جانیوالی حکومتی جوڈیشل کمیشن جس کی سربراہی جسٹس باقر نجفی کر رہے تھے‘ وہ رپورٹ جادو کی چھڑی سے غائب کردی جائے اور نکاح پر نکاح کے مصداق ایک نئی جے ٹی آئی بنا کر اپنی مرضی کا فیصلہ اور رپورٹ لے لی گئی ۔اسی طرح الیکشن 2013ءمیں دھاندلی کی شکایات اور ملک گیر احتجاج پر اپنی پسندیدہ عدلیہ کو استعمال کرکے اپنی مرضی کی رپورٹ اور تشریح حاصل کر لی جائے اور پھر معصومانہ انداز میں سرکاری ٹی وی چینل پر بیٹھ کر عوام کو مژدہ سنایا جائے کہ دنیا کے بدترین دھاندلی زدہ انتخابات شفاف اور آئینی قرار پا چکے ہیں مگر صاحبان کیا قوم کا حافظہ اتنا ناقص ہے کہ صرف چند سال پہلے سابق جسٹس راشد عزیز اور سابق چیف جسٹس ملک قیوم کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ بھی یاد نہیں؟ ملک کی عدلیہ اور عدالتوں نے پچھلے تیس سال کے دوران شریف برادران کےخلاف فیصلہ دینے کی جرا¿ت نہیں کی۔ خصوصاً گزشتہ روز آنےوالے جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے نہ صرف انصاف کا خون ہوا ہے بلکہ یہ ثابت کیا ہے کہ عدلیہ اندھی‘ بہری اور گونگی ہوتی ہے۔ آج ملک کے بیس کروڑ عوام عمران خان‘ اسکے ساتھیوں اور پی ٹی آئی کےخلاف آنےوالے اس فیصلے پر شاید خاموش رہیں‘ مگر یہ ملک گیر سناٹا آنےوالے کسی خوفناک طوفان کا پیش خیمہ ضرور ہے۔ آج ملک کے گلی کوچوں اور قریہ قریہ میںیہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو یہ سب کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ اس ملک کی سیاست میں آگے کیا ہونے جا رہا ہے حتیٰ کہ کچھ اینکرز اور کالم نویس خواتین و حضرات طنز کے نشتر بھی چلاتے ہیں۔ شاید اب یہ عمران خان کے پاس آخری موقع ہے کہ وہ ملک کی دیگر سیاسی طاقتوں بشمول طاہرالقادری‘ پرویز مشرف‘ چودھری برادران اور چھوٹی نیم مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اپنے سیاسی اور قومی اہداف حاصل کریں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...