بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ مجھے جناب مجید نظامی کے ساتھ اسلامیہ کالج لاہور میں 1944ء میں ایف اے کے درجے میں تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل رہا ہے لیکن اس زمانے میں مجید نظامی بابائے صحافت نہیں تھے اور نہ ہی کسی کو یہ معلوم تھا کہ وہ جناب حمید نظامی کے بھائی ہیں جنہیں قائد اعظم محمد علی جناح کی نظر عنایت اور دست شفقت حاصل تھا تاہم جب وہ سرتاج عزیز جیسے نمایاں طالب علموں کے ساتھ محفلوں میں آتے تو اپنی کم گوئی کے باوجود یہ تاثر ضرور پیدا ہوتا کہ ان کے قالب میں ایک بڑا انسان پرورش پا رہا ہے جو دوسروں کی مدلل بات بڑے غور سے سنتا ہے اور پھر شاید اس کا تجزیہ اپنے دل میں ضرور کرتا ہو گا۔ مجید نظامی صاحب سے اسلامیہ کالج کے علمی، ادبی اور سیاسی ماحول میں قربت شاید اس لیے بھی پیدا نہ ہو سکی کہ وہ عمرانیات کے طالب علم تھے اور میں سائنس کا طالب علم تھا اور ہمارے سیکشن الگ الگ تھے۔ صرف انگریزی کے پیریڈ اکٹھے ہوتے تھے لیکن طلباء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ سب سے شناسائی ممکن ہی نہیں تھی۔ ثانیاًحاضری لگائی جاتی تو نام کی بجائے رول نمبر پکارا جاتا۔ البتہ جب انگریزی کے پروفیسر عزیز اصغر انصاری پروفیسر گپتارا، ضیا نثار جالندھری یا الطاف گوہر کسی ادبی رسالے میں چھپے ہوئے مضمون کا ذکر کرتے تو آگے بیٹھے ہوئے مجید نظامی ان کی بات کا نوٹس ضرور لیتے اور کالج کی لائبریری میں سب سے پہلے پہنچ کر اس مضمون تک رسائی حاصل کرتے۔ مجھے بھی ادب کی چاٹ طالب علمی کے زمانے میں ہی لگ چکی تھی۔ میں لائبریری میں جاتا تو مجید نظامی وہاں پہلے سے موجود ہوتے لیکن ان سے دوستی کا ناتہ پیدا نہ ہو سکا۔
اس دوران میں نے ہی تحریک پاکستان کو علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا کے ہمراہ ہوا دینی شروع کی اور ہندو پریس نے مخالفت شروع کر دی تو لاہور میں مسلمانوں کو بیدار کرنے اور طلباء کو سیاست سے آشنا کرنے کا بیڑہ جناب حمید نظامی نے اٹھایا اور اسلامیہ کالج لاہور میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد ڈالی اور اس کے پہلے صدر منتخب کیے گئے۔ حمید نظامی اسلامیہ کالج میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ صحافی بن گئے اور ’نوائے وقت‘ نکال کر قائد اعظم کے ارشادات کی تعمیل کرنے لگے۔ میں جب 1944ء میں اسلامیہ کالج میں داخل ہوا تو طلباء کے سیاسی رہنما قاسم رضوی تھے اور انہیں پرنسپل ملک عمر حیات کی پوری سرپرستی اور تعاون حاصل تھا چنانچہ تحریک پاکستان نے ہوا پکڑی تو قاسم رضوی طلباء کے جلوس نکالنے لگے۔ اس وقت پنجاب میں خضر حیات نے انگریزی حکومت کے تعاون سے ہندوئوں سے مل کر مخلوط حکومت قائم کر رکھی تھی۔ خضر حیات کی یونینسٹ پارٹی پاکستان کی شدید مخالف تھی اور اسلامیہ کالج کے طلبا کا جلوس نکلتا تو اس کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ہرممکن کوشش کرتی لیکن اسلامیہ کالج کے طلباء کا جذبہ بھی والہانہ تھا اور ان کا نعرہ ایک ہی تھا کہ ’’لے کر رہیں گے پاکستان‘‘ … ان جلوسوں میں خضر حیات کی وزارت میں شامل وزیروں کو بھی ہدف بنایا جاتا لیکن پاکستان کا نعرہ سب نعروں پر فوقیت رکھتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان جلوسوں میں نعرہ لگانے والوں میں مجید نظامی سب سے آگے ہوتے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسلامیہ کالج کے مقابلے میں سنائن دھرم کالج کے طلباء نے بھی پاکستان کی مخالفت میں جلوس نکالنے شروع کر دیئے اور ان کے نعرے محمد علی جناح کے خلاف ہوتے تھے جو ان دنوں ابھی قائد اعظم موسوم نہیں ہوئے تھے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ خواتین اسلامیہ کالج کوپر روڈ کی طالبات نے بھی جلوس نکالنے شروع کر دیئے تھے اور انہیں میں سے ایک لڑکی نے جرأت مندی کا مظاہرہ کیا اور مال روڈ کے مغربی سرے پر واقع حکومت پنجاب کے سیکرٹریٹ پر پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا۔
ادھر اسلامیہ کالج کے طلبا کے جلوس کا رخ بھی سیکرٹریٹ کی طرف ہی ہوتا۔ یہ جلوس اسلامیہ کالج سے نکلتا اور بالعموم فلیمنگ روڈ سے گزر کر دیال سنگھ کالج کے مسلم لیگی طلبا کو ساتھ لیتا اور مال روڈ پر آجاتا جہاں عجائب گھر کے سامنے بھنگیوں کی توپ کے کراسنگ پر گورنمنٹ کالج لاہور کے مسلم لیگی طلبا نعرے لگاتے ہوئے جلوس میں شامل ہو جاتے۔ سنائن دھرم کالج پنجاب سیکرٹریٹ کے قریب تھا۔ ایک منظم منصوبے کے مطابق اس کالج کے طلبا پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے آتے اور پھر دونوں جلوس آمنے سامنے ہو جاتے۔ ایک ایسے ہی جلوس میں جذبات کی شدت اتنی بڑھی کہ تصادم ہوگیا۔ سنائن دھرم کالج کے جلوسیے منصوبے کے تحت تیار ہو کر آئے تھے اور ہر ایک کے ہاتھ میں پتھر تھے۔ چنانچہ اسلامیہ کالج کا جلوس سیکرٹریٹ کے قریب پہنچا تو تصادم عمل میں آگیا۔ ایک پتھر ہوا میں لہراتا ہوا آیا اور پہلی صف کے طلبا میں سے عبدالمالک کے سر پر آلگا۔ اس پتھر میں اتنی شدت تھی کہ عبدالمالک کا سر پھٹ گیا اور اس کے خون کے چھینٹے مجید نظامی کی قمیض پر بھی گرے جو ان کے ساتھ ہی جوش و خروش سے نعرہ زنی کر رہے تھے۔ اس اندوہ ناک واقعے نے پنجاب ہی نہیں پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو جھنجوڑ دیا اور پاکستان کے حصول کو مجسم صورت میں ڈھال دیا۔ یہ تذکرہ تاریخ کا ایک الگ باب ہے۔ مجھے یہاں اس وقت اس بات کا اظہار کرنا ہے کہ مجید نظامی خون آلودہ قمیض میں واپس کالج کے مقبول ترین طالب علم بن چکے تھے اور اس وقت ہرشخص کو یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ وہ کوئی معمولی طالب عمل نہیں ہیں بلکہ ’’نوائے وقت‘‘ کے مدیر حمید نظامی کے چھوٹے بھائی ہیں اور خود بھی ’’نوائے وقت‘‘ میں لکھتے ہیں۔ اس دن کے بعد مجید نظامی کی شہرت کو چار چاند لگنے لگے تو ان کے قلم نے پاکستان کی پاسبانی کا فریضہ بھی قبول کرلیا۔
میری ان سے باقاعدہ ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ حمید نظامی کی وفات کے بعد ’’نوائے وقت‘‘ کے باقاعدہ مدیر بن گئے۔ اب ان کے سامنے اقبال کی تعلیمات، قائداعظم کے ارشادات، دین مبین، قرآنی تعلیمات اور نظریہ پاکستان تھا ۔ انہوں نے نوائے وقت کو اتنی توسیع دی کہ ان کی زندگی میں ہی یہ ’’صحافت کی ایک ایسی سلطنت‘‘ بن گیا جس کے سنگھاسن پر نظریہ پاکستان کا محافظ بیٹھا تھا۔ میری آرزو تھی کہ مجھے بھی ’’نوائے وقت‘‘ کے ادارے میں شرکت کا موقع مل جائے۔ یہ موقع اس وقت پیدا ہوا جب میں نے ایک مقامی اخبار سے استعفیٰ دے دیا۔ جناب منیر احمد منیر جو ’’آتش فشاں‘‘ نکالتے تھے اور ندائے ملت نکالتے تھے مجھے نوائے وقت میں لے آئے۔ جناب مجید نظامی جانتے تھے کہ میری زندگی انجینئرنگ کے محکمے میں گزری ہے لیکن وہ میری ادبی جہت سے بھی آشنا تھے۔ چنانچہ انہوں نے پہلی ملاقات میں ہی اسلامیہ کالج کے رسمی طالب علم کو شعبہ ادارت میں جگہ دے دی اور ادب و صحافت کے وسیع تر معاشرے میں مجھے نمایاں ہونے کے ایسے مواقع دئیے کہ اب میں اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتا ہوں۔ بڑھاپا وارد ہونے لگا تو میں نے ریٹائرمنٹ کی درخواست دی۔ مجید نظامی صاحب نے بالائی منزل پر حمید نظامی لائبریری میں ایک الوداعی تقریب کی اور مجھے ریٹائر کردیا لیکن نیچے اپنے دفتر میں آئے تو مجھے بلا کر کہا ’’آپ دفتر سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ نوائے وقت سے ریٹائر نہیں ہوئے۔ لکھنے والے کبھی ریٹائر نہیں ہوتے‘‘۔ افسوس یہ ہے کہ یہ زریں الفاظ کہنے والا خود اس دنیا سے میری وفات سے پہلے اٹھ گیا اور میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ اب بھی مجھے کہہ رہے ہیں۔ ’’ادیب اور صحافی کبھی ریٹائر نہیں ہوتے‘‘۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔
جناب مجید نظامی کی طالب علمی کی جاوداں یادیں
Jul 28, 2015