اسلام آباد (رائٹرز) دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد پھانسیوں پر پابندی ختم کر دی گئی تھی اور اب تک 180 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ رمضان کے احترام میں عارضی طور پر روکی گئی پھانسیوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو رہا ہے۔ برطانوی خیبر ایجنسی رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق پھانسیوں پر پابندی ختم کرتے وقت دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے کی بات کی گئی تھی تاہم اب تک اعداد و شمار کے مطابق سزائے موت پانے والے ہر 6 ماہ میں سے تقریباً ایک مجرم کا تعلق دہشت گردی کی وارداتوں سے تھا۔ 29 جنوری سے اب تک قتل، اقدام قتل، فرقہ ورانہ قتل، ہائی جیکنگ اور سکیورٹی اہلکاروں کو مارنے کا جرم کرنے والوں کو پھانسی دی گئی ہے۔ رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں پاکستان پھانسیوں کے حوالے سے چین اور ایران کے بعد تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پھانسیوں پر پابندیوں کے خاتمے کے بعد ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی دیکھی گئی ہے اور ان پھانسیوں نے دہشت گردی کے خاتمے کی لڑائی میں کردار ادا کیا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون اشتر اوصاف علی نے کہا دہشت گردی میں کمی کی ایک وجہ پھانسی دئیے جانے کا خوف بھی ہے تاہم بعض تجزیہ کاروں نے دہشت گردی اور پھانسیوں میں تعلق پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے سربراہ محمد عامر رانا نے کہا کہ اس سال دہشت گردی میں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی۔ 2014ء کی پہلی ششماہی میں دہشت گردی میں 976، دوسری ششماہی میں 747 اور رواں سال کی پہلی ششماہی میں 612 افراد مارے گئے۔ دہشت گردی میں کمی کے حوالے سے فوجی آپریشنز کا بھی اہم کردار ہے۔ رپورٹ میں میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے قائم فوجی عدالتوں میں اب تک 100 کیسز بھیج جا چکے ہیں جن میں سے 27 کے فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔