مسلم لیگ کے کئی سیاستدانوں نے بظاہر کالاباغ ڈیم کی حمایت کی ہے مگر! اور یہ مگر اب مگر مچھ بن گیا ہے۔ سمندر میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر؟ اقتدار کے لئے کبھی کبھی بہت غیر ضروری باتیں ضروری ہو جاتی ہیں۔ اس پر میں ابھی بات کروں گا۔ یہ تو اب طے ہے کہ اس ملک کے مسائل کا حل کالاباغ ڈیم میں ہے۔ انرجی کا بحران اس کے بغیر حل ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک ٹیکنیکل معاملہ جسے خواہ مخواہ سیاسی بنا دیا گیا ہے ۔ کسی ملک میں عوام کے وسیع تر مفادات کے لئے وقتی طور پر نقصانات بھی برداشت کر لئے جاتے ہیں۔ یہ کیا سلسلہ ہے کہ مفروضوں کی بنیاد پر ممکنہ نقصانات کا بہانہ بنا کے اس سب بگاڑ کو قوم کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔
مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی کی برسی پر وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ کالاباغ ڈیم بننا چاہئے اور ہم بنائیں گے مگر اس کے لئے سب کا اتفاق رائے ضروری ہے۔ اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے مگر اس کے لئے کوئی بات شروع نہیں کی گئی ہے۔ کوئی اے پی سی اس مسئلے پر بھی بلائی جاتی۔ اس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھی بلایا جاتا اور دوستوں کو قائل کیا جاتا؟
وہ لوگ جو قائل ہونے کے لئے تیار ہی نہیںہیں ان کے لئے اب یہ بات ایک کھلا سچ بن چکی ہے کہ انہوں نے بیرون ملک کئی ایجنسیوں سے پیسے لے لئے ہیں۔ قومی فائدے کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دینا کسی طور پر بھی مناسب نہیں بلکہ سخت ناروا ہے۔ ان لوگوں کو قومی سطح پر بے نقاب کیا جائے اور یہ بات میڈیا پر لائی جائے تاکہ کالاباغ ڈیم کے لئے راہ ہموار کی جا سکے۔ میرا خیال ہے کہ اس کام کے لئے خواجہ سعد رفیق بہت موزوں آدمی ہیں۔ وہ دلیر آدمی ہیں ’’قومی سوچ رکھتے ہیں اور کسی رکاوٹ کو خاطر میں لانے والے نہیں ہیں۔
نواز شریف بھی اس حوالے سے پوری طرح جانتے ہیں کہ مسائل سے نکلنے کے لئے یہ رستہ سب سے زیادہ آسان اور سازگار ہے۔ 2018ء تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے جو ارادے ہیں ان میں یہ آرزو بھی کہیں تڑپتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دوسرے حوالوں سے معاملات پر قابو پانے کی کوشش کی جا سکتی ہے مگر اس کے بعد مسائل کسی اور شکل میں سامنے ہوں گے بجلی کی قیمتوں کے لئے بھی لوگ کسی مہنگی صورتحال کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔
سیلاب کی تباہ کاریاں بھی بہت گھمبیر ہیں۔ ہر سال یہی حال ہوتا ہے۔ فوری طور پر امدادی سرگرمیوں پر ذاتی طور پر نظر رکھی جاتی ہے۔ شہباز شریف تو پانیوں میں اترتے ہیں مگر بپھراہوا پانی اس طرح کسی کی نہیں مانتا۔ لوگ ہر سال اس صورتحال میں ڈوبتے ہیں۔ ابھرتے ہیں مگر انہیں کوئی کنارہ نہیں ملتا۔ لوگ زندگی سے اتنی محبت رکھتے ہیں کہ سیلاب کے خطرے کے باوجود وہ فصلیں کھڑی کرتے ہیں جن کے لئے یہ اطلاع آئی ہے کہ ہزاروں ایکڑ کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں مگر سال بھر کی محنت کے ضائع ہونے کے باوجود لوگ ہتھیار نہیں ڈالتے۔ ان کے پاس کوئی ہتھیار ہوتا ہی نہیں۔ لوگ مرتے ہیں مگر جو زندہ رہتے ہیں۔ وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نہ جینے دیا جاتا ہے نہ مرنے دیا جاتا ہے۔
آخر وہ انتظام کب ہو گا کہ لوگ ہمیشہ کے لئے ان مصیبتوں سے چھٹکارہ پائیں گے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کالا باغ ڈیم بنایا جاتا۔ یہ بنانا پڑے گا۔ مگر اس سے پہلے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جاتے۔ اس طرح کے ڈیم مقامی طور پر چھوٹے چھوٹے ندی نالوں پر بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ بارش کے پانی کو روک کر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح چنگھاڑتا ہوا پانی کوئی نقصان نہیں کر سکے گا بلکہ اسے فائدے کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔
ہمارے گائوں موسیٰ خیل ضلع میانوالی میں بارشوں کے موسم میں بڑی تباہی ہوتی تھی۔ ہم تو سنتے ہیں کہ کئی گھر بار اور کھیت بہہ جاتے تھے۔ پھر انگریزوں نے پڑوس میں ایک چھوٹی سی پہاڑی کے دامن میں نمل ڈیم بنایا۔ سب پانی وہاں روک لیا جاتا اور جب ضرورت ہوتی تو پانی چھوڑ دیا جاتا اور کسان اس سے حسب ضرورت فائدہ اٹھاتے۔ ہم انگریزوں کے خلاف بہت باتیں کرتے ہیں اور ٹھیک بھی ہیں۔ ان سے آزادی حاصل کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بڑی قربانیاں دیں مگر آزادی حاصل کرنے کے بعد زیادہ شرمناک غلطی ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ پورے ہندوستان میں عوام کی بھلائی کے لئے منصوبے جو انگریزوں نے بنائے ان کا تصور بھی اگلے پچھلے سب حکمرانوں کے ذہن و دل میں نہیں ہے۔ انہیں اپنی حکومت کی فکر ہوتی ہے۔ جو کام ان کی حکومت کی بقا کے لئے ضروری اور مفید ہے۔ بس وہی کام ہے۔
زعیم قادری کہتے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی نے کالا باغ ڈیم کے لئے کیا کیا؟ یہ اپنی کارکردگی یا اپنی ناکارکردگی کے لئے کوئی جواز نہیں ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ ہم نے 28 سمال ڈیم بنائے۔ جبکہ اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا۔ نثار کھوڑو کو ایک اور وزارت انعام میں ملی ہے تو وہ ہر طرح کے بیانات دینے کے قابل ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عمران اور نواز شریف کہیں بھی تو کالا باغ ڈیم نہیں بن سکتا۔ اب تو عمران اور نواز شریف کا فرض ہے کہ وہ دونوں کہیں اور میں تو کہوں گا کہ وہ مل کر کہیں کہ کالا باغ ڈیم بنے گا اور ضرور بنے گا۔ یہ بھی درست ہے کہ اگر عمران خان نواز شریف مل کر چاہیں تو یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔ اس سے جنرل راحیل شریف بھی دلچسپی لیں تو پھر کوئی مشکل نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی کالا باغ بنانے کا ارادہ کر لے گا تو کوئی اس کے خلاف نہیں بولے گا۔ یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ صرف بیان بازی کی حد تک ایک واویلا مچایا جاتا ہے جسے گندی سیاست کی نذر کر دیا جاتا ہے۔
اسفند یار ولی پوری قوم کا نمائندہ نہیں ہے۔ وزیراعظم تو پوری قوم کا نمائندہ ہے۔ سپہ سالار اعلیٰ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی قوم کے احسانات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کے لئے بھی بڑے لوگوں کو آگے آنا چاہئے جو پاکستان کے لئے سوچتے ہیں۔ اسفند یار ولی اپنے پٹھان بھائی بہت بڑے انجینئر شمس الملک سے بات کریں۔
اس حوالے سے رانا ثنااللہ کی سیاست بہت دلچسپ ہے کہ عمران خان خیبر پختون خوا اسمبلی سے کالا باغ ڈیم کے حق میں قرارداد منظور کرا لیں تو کام ہو جائے گا۔ یہ تجویز اچھی ہے۔ اس پر غور کرنا عمران خان کا کام ہے۔ رانا صاحب یہ بات نواز شریف سے بھی کہلوا دیں۔