کراچی میں بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی کارروائیاں حد سے بڑھ گئیں تولگ بھگ تین سال پہلے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک ازخودنوٹس کے تحت کراچی میں لاقانونیت، بدامنی اور مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال پر متعلقہ اداروں کو بلا کر نوٹس کی سماعت شروع کی۔ اِس ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سیکورٹی اداروں کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ کراچی کی بدامنی میں جہاں غیروں کا ہاتھ شامل حال تھا، وہیں اپنوں نے بھی معاملات کو انتہا درجے تک بگاڑنے میں پورا پورا حصہ ڈالا تھا۔ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا کہ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مسلح ونگز بنارکھے تھے، جو اپنے اپنے ”زیر نگیں“ علاقوں میں تمام ”معاملات“ کنٹرول کرتے تھے، سیاسی جماعتوں کے یہ مسلح جتھے بھتہ لینے میں ہی ملوث نہ تھے بلکہ مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ بھی اِنہی کے ”ذمہ“ تھی۔ اس کیس کی سماعت کے دوران جہاں کراچی میں بدامنی کی بنیادی وجوہات سامنے آئیں تو وہیں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی مجبوریاں اور سیاسی حکومتوں کی نااہلی بھی آشکار ہوگئی۔ کراچی بدامنی کیس میں جب اس طرح کے حقائق پیش کیے گئے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مختلف سیاسی، مذہبی اور کالعدم جماعتوں کے عسکری سیلز اور ٹارگٹ کلرز کیخلاف کارروائیاں شروع کرنے کا فیصلہ ہوا اور کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں باالخصوص رینجرز کو خصوصی اختیارات تفویض کیے گئے۔
آنیوالے دنوں میں یہ اِن خصوصی اختیارات کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا کہ کراچی میں کئی دہائیوں کے بعد امن قائم ہونا شروع ہوگیا۔ بھتہ خوری کی شکایات ختم ہوگئیں، ٹارگٹ کلنگ رُک گئی، دہشت گردی کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہ گئے اور تاجر طبقے کےساتھ ساتھ عام شہریوں نے بھی سکھ کا سانس لینا شروع کردیا۔ بعد میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو اس میں بھی کراچی کو شامل کرلیا گیا، اِسی آپریشن ضرب عضب میں ناصرف دہشت گردوں کے قلع قمع کا فیصلہ کیا گیا بلکہ دہشت گردوں کی مالی اعانت کرنے اور انہیں کسی بھی حوالے سے سہولت فراہم کرنے والے افراد کیخلاف بھی سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کراچی کا امن تباہ کرنے والے عناصر کی رہی سہی امیدوں پر اُس وقت پانی پھر گیا، جب آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردوں کے خوفناک حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان شروع کیا گیا تو کراچی میں سیاسی جماعتوں کے اندر چھپے دہشت گرد عناصر ناصرف بے نقاب ہونے لگے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں بھی آنے لگے۔ رینجرز کے ایک اعلامیے کے مطابق 5 ستمبر 2013 سے شروع ہونیوالے آپریشن کے بعد کراچی میں بلاتفریق کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے ڈھائی سال میں 848 ٹارگٹ کلرز گرفتار کیے گئے،جنہوں نے مبینہ طور پر 7224 افراد کا قتل کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ”ہدف کش “ پکڑے جانے سے ”ہدف کشی“کے واقعات میں کمی واقع ہونا ایک لازمی امر تھا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آپریشن ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کو کامیاب بنانے کیلئے سندھ کی سب سے بڑی اسٹیک ہولڈر سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پیش پیش نظر آتی لیکن اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کی بجائے مختلف اقدامات کے ذریعے سندھ حکومت نے امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔چونکہ رینجرز جن اختیارات کے تحت سندھ میں کارروائیاں کررہے تھے، اُن اختیارات کی مدت مکمل ہونے کے بعد سندھ حکومت کو توسیع دینا پڑتی ہے، بس یہی ایک ایسا پتہ تھا جسے سندھ حکومت ہر بار توسیع دیتے ہوئے اپنے مطلب اور مقصد کیلئے استعمال کرتی رہی۔ کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ اختیارات دینے کے عوض سندھ حکومت نے اس حد تک لیت و لعل سے کام لیا کہ اُس کا الٹا نقصان ہونے لگا۔سندھ حکومت رینجرز کے اختیارات میں توسیع تو کرتی رہی، لیکن انداز اور طریقہ ہمیشہ وہی رہا کہ ”بکری نے دودھ تو دیا لیکن مینگنیاں ڈال کردیا“۔ اب پھر 19 جولائی کو سندھ میں رینجرز کو دیے جانے والے اختیارات کی مدت مکمل ہوئی تو سندھ حکومت کی جانب سے ان اختیارات میں فوری توسیع کی بجائے ڈاکٹر عاصم کے کیس میں ”سودے بازی“ کرنے کیلئے معاملے کو لٹکادیا گیا۔
رینجرز کے اختیارات کا معاملہ لٹکا کر پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر عاصم کیس میں سودے بازی کرنے کی خواہش تو یقینا کامیاب نہ ہوسکی، لیکن اختیارات کی مدت میں توسیع میں تاخیر سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کی قیمتی جانوں کا نقصان ضرور کرگئی۔ منگل کی شام دہشتگردوں نے کراچی شہر کے مصروف علاقے صدر میں فوج کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا اور فائرنگ کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، فائرنگ کے اس واقعہ میں دو فوجی جوان شہید ہوگئے۔فوجی جوانوں پر حملوں اور شہادتوں کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ ابھی گذشتہ سال دسمبر میں شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر تبت سینٹر کے قریب ملٹری پولیس کی ایک گاڑی پر مسلح افراد کے حملے میں دو اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔ اس طرح کے واقعات عموما اُس وقت ہوئے، جب رینجرز کے اختیارات میں توسیع دینے میں لیت و لعل سے کام لیا گیا اور اختیارات ختم ہونے پر سیکورٹی اداروں نے اپنی چیک پوسٹیں خالی کرنا شروع کیں تو دہشتگرد بے خوف ہوکر دوبارہ اپنی کارروائیاں کرنے پر اُتر آئے۔
رینجرز کو اختیارات دینے میں لیت و لعل سے کام لیے جانے کے دوران اِس حقیقت کو یکسر نظرانداز کردیا گیا کہ یہ ”حرکت“ دراصل دہشتگردوں اور ”ہدف کش قاتلوں“ کی مدد کرنے کے ہی مترادف ہے۔ جہاں تک کراچی میں رینجرز کو ملنے والے اختیارات کے نتائج کی بات ہے تو خود پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کے پہلے سات ماہ میں ہلاکتوں کی تعداد 390 رہی، جبکہ گذشتہ سال اسی عرصے میں 664 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ جس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ رینجرز ہدف کشی کے واقعات پر 50 فیصد تک قابو پانے میں کامیاب ہوچکی ہے اور باقی واقعات پر بھی آنیوالے دنوں میں قابو پالیا جائیگا۔ ان تمام حقائق کے باجود پاکستان پیپلز پارٹی کے کارپردازوں کو نجانے یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ کراچی سمیت سارے سندھ میں امن قائم ہوگا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ہی ہوگا، ورنہ 2013ءکے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں جو کچھ ہوا اور اب حال ہی میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں جو کچھ ہوچکا ہے، 2018ءکے انتخابات میں سندھ میں اُس سے بھی بد تر حشر ہوسکتا ہے۔
قارئین کرام!! وفاق کی سب سے بڑی پارٹی اور چاروں صوبوں کی زنجیر کہلانے والی جماعت آخری سانسیں لے رہی ہے تو اس کا قصور وار کون ہے؟ جو کام چار آمریتیں مل کر نہ کرسکیں، وہ پاکستان کے خود ساختہ ”نیلسن منڈیلا“ نے خود اکیلے ہی کردیا، آزاد کشمیر میں عبرتناک شکست کے بعد تو اب پیپلز پارٹی کے مزار پر فاتحہ خوانی کرنیوالا بھی کوئی نہیں بچا۔کیا بینظیر بھٹو کی زندگی میں کوئی پاکستان پیپلز پارٹی کے اس عبرتناک انجام کا تصور بھی کرسکتا تھا؟کوئی ہے جو فخر ایشیا کے داماد سے پوچھے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی بے سروسامانی کے عالم میں کی جانےوالی تدفین کے بعد آخر آپ اور کیا چاہتے ہیں؟