جون 2015 ءمیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے بنگلہ دیش دو روزہ دورے کے دوران ڈھاکہ میں مشرقی پاکستان سے متعلق دیئے گئے بیان نے پاکستان میں ہلچل مچا دی تھی ۔ وزارت خارجہ میں تو جیسے بھونچال آ گیا تھا۔ وزیر خارجہ یعنی وزیراعظم پاکستان ان دنوں تاجکستان گئے ہوئے تھے۔ وزارت خارجہ میں سارا دن کسی کو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ کس طرح کا بیان جاری کیا جائے۔ صحافیوں نے اس حوالے سے جب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور سرتاج عزیز سے رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ اس مسئلے پر ذاتی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میڈیا والے جامع سرکاری ردعمل کےلئے تھوڑا انتظار کریں شاید وزارت خارجہ کے بابو¶ں کو وزیراعظم کی طرف سے ہدایت یا جواب کا انتظار تھا اور سرتاج عزیز منجھے ہوئے انتہائی تجربہ کار پاکستانی سیاستدان ہونے کے باوجود بھارت کیخلاف ذاتی رائے دینے کو تیار نہیں تھے۔
بھارتی وزیراعظم نے جو کچھ ڈھاکہ یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میںکھڑے ہو کر کہا وہ سب ایک کھلا سچ ہونے کے باوجود غیر معمولی تھا کہ بھارتی وزیراعظم پہلی بار باضابطہ طور پر نہ صرف 1971 ءمیں بھارتی فوج کی جارحانہ مداخلت کے ذریعے پاکستان کو دولخت کرنے کا نہ صرف اظہار کر رہا تھا بلکہ بھارتی جرم کا کھلے عام اقرار بھی کر رہا تھا۔اس موقع پر بھارتی وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ مشرقی پاکستان کو توڑ کر پاکستان کے اس حصے کو بنگلہ دیش بنانا ہر بھارتی کی خواہش تھی۔ بھارتی فوج نے بنگلہ دیش کی آزادی کےلئے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاکستان کیخلاف جنگ لڑی اور بنگلہ دیش کے دیرینہ خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ مودی نے تقریر کے دوران قریب ہی موجود بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کی طرف دیکھتے ہوئے ستائشی انداز میں اپنی ذات سے متعلق بتایا کہ وہ 1971 ءمیں مکتی باہنی کی حمایت میں سیتہ گرد تحریک میں بطور نوجوان رضاکار شرکت کےلئے خصوصی طور پر نئی دہلی پہنچے تھے۔ یہ سن کر حسینہ واجد سمیت تقریب میں موجود تمام شرکا کھڑے ہو کر تادیر تالیاں بجاتے رہے۔
ویسے تو پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کے حوالے بھارتی کردار سے متعلق سوائے بھارت نواز لبرل طبقات کے کسی کو شک نہیں تھا لیکن پاکستان کا یہ طبقہ بھارت پر حقائق پر مبنی الزام کو کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ان کا ایک ہی رٹا رٹایا م¶قف تھا کہ پاکستان مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے مظالم کی وجہ سے الگ ہوا تاہم اب بھارت کا اقرار سامنے آنے کے بعد دو باتیں ضروری ہو گئی تھیں کہ ایک تو پاکستان کو دو لخت کرنے کے جرم کا بھارت کی طرف سے اقرار سامنے آنے کے بعد پاکستان اس مسئلے کو ازسرنو عالمی سطح پر اٹھائے‘ دنیا کو بتائے کہ بھارت پاکستان کو مزید توڑنے کےلئے اپنی سازشوں کا سلسلہ بدستور جاری رکھے ہوئے ہے۔
علاوہ ازیں بھارت سے وزیراعظم مودی کے پاکستان سے دو طرفہ تعلقات کو ”بے کار“ قرار دیئے جانے پر وضاحت طلب کی جاتی۔ بہرحال دوسرے روز دفتر خارجہ کی طرف سے رات کو ایک بیان جاری ہوا جس میں عالمی برادری کو مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت کے اعتراف کا نوٹس لینے کی درخواست کی گئی۔ دوسرے روز قومی اسمبلی و سینیٹ میں متفقہ قراردادیں منظور کی گئیں جن میں بھارتی وزیراعظم کے مشرقی پاکستان کے حوالے سے بیان کو پاکستان کی سلامتی پر حملہ قرار دیا گیا۔
تاجکستان میں وزیراعظم نوازشریف نے نریندر مودی کے بیان کو مایوس کن قرار دیا ان کی اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون سے ہونےوالی ملاقات سے متعلق وہاں موجود صحافیوں نے سوال کیا تو وزیراعظم کے نمائندہ نے بتایا کہ وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں استصواب کی ضرورت کے علاوہ دیگر بہت سے امور پر بات کی۔
پاکستان میں نریندر مودی کے بیان پر عوام کے بڑھتے ہوئے ردعمل کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے بیان دیا کہ حکومت نریندر مودی کے بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ میں جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں بھارت کیخلاف عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کیا جائےگا۔ اسکے بعد کیا پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارت کےخلاف اقوام متحدہ میں درخواست جمع کرائی یا 1971 ءمیں بھارتی جارحیت کیخلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا ؟ تا حال پاکستانی عوام اس سے بے خبر ہیں ہاں اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد سے پاکستان کو 1971 ءمیں دو لخت کرنے کےلئے ہراول دستے کا کردار ادا کرنے کی پاداش میں ایوارڈ وصول کرنے والا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی چند ماہ بعد رائے ونڈ (لاہور) میں وزیراعظم پاکستان کے خصوصی مہمان کے طور پر موجود تھا۔ اس سے کہیں بڑھ کر مودی کے مشیر خاص اجیت کمار دودل کی ساتھ ہی آمد اور وزیراعظم کے گھر میں موجودگی حیران کن تھی۔
مودی اگر گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل میں براہ راست ملوث ہونے کا اعزاز رکھتا ہے تو گودھرا ریلوے سٹیشن پر ہندو یاتریوں سے بھری بوگی میں بھڑکنے والی آگ سے لیکر گجرات میں مسلمانوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی کا ”سکرپٹ رائٹر“ یہی دودل ہے۔
پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے دہشت گردی ہو یا صوبہ بلوچستان میں تخریب کاری اس میں کہیں نہ کہیں اجیت کمار دودل کا نام ضرور آتا ہے۔اور اب مقبوضہ کشمیر میں انتہا کو پہنچی بھارتی بربریت پر عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر سرتاج عزز نے ایک بار پھر بھارت کیخلاف اقوام متحدہ سے رابطہ کرنے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی سینیٹ کے ممبران کو بتایا گیا ہے کہ بھارت کےخلاف پاکستان کی وزارت خارجہ مختلف ممالک کو خطوط ارسال کر چکی ہے تاکہ وہ بھارت پر مقبوضہ کشمیر میں ظلم و تشدد روکنے کےلئے دبا¶ ڈالیں۔
آج کے دور میں جب پوری دنیا دکھائی دینے والے کشمیری عوام کے احتجاج‘ احتجاج کرنےوالوں پر بھارتی فوج کی فائرنگ اور اسکے نتیجے میں ہونیوالی شہادتوں کا خود نظارہ کررہی ہے تو اس کےلئے خطوط کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر وفود تشکیل دیں جو ذاتی طور پر مختلف ممالک میں جا کر وہاں کی حکومتوں اور میڈیا سے رابطہ کریں۔
بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانیوالے مظالم اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں سے متعلق سب کو آگاہ کریں۔ باشعور مغربی عوام کو احساس دلائیں کہ کشمیری جو گزشتہ سات دہائیوں سے آزادی کےلئے لڑ رہے ہیں وہ دہشت گرد کس طرح ہو گئے۔ بھارتی فوج اگر کم عمر بچوں پر پتھر برسانے کے بدلے ان پر گولیاں چلائے گی پرندوں ‘ جانوروں کے شکار کےلئے استعمال کئے جانیوالے کارتوس بچوں کیخلاف استعمال کر کے انہیں زندگی بھر کےلئے اندھا کرےگی۔ کشمیریوں کی بہو بیٹیوں کی عصمتوں کو پامال کریگی تو کیا اس کے جواب میں کشمیری بھارتی فوجیوں کے گلے میں ہار ڈالیں گے؟
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے بھارتی قیادتوں سے ذاتی مراسم بھارت کیخلاف پاکستان کی طرف سے م¶ثر ردعمل کی راہ میں بھاری پتھر بنے ہوئے ہیں۔یہ مسئلہ صرف موجودہ پاکستانی قیادت ہی کو درپیش نہیں۔ گزشتہ حکمران بھی بھارت سے دوستی کےلئے ہمیشہ ریشہ خطمی رہے۔ آصف علی زرداری نے حلف اٹھاتے ہی پہلا خط بھارت میں کانگرس جماعت کی سربراہ سونیا گاندھی کو لکھا جس میں اپنے بیوی بچوں کا خیال رکھنے پر اس کا شکریہ ادا کیا گیا۔ یہ تو عوام کا دبا¶ ہے کہ ہمارے سابقہ و موجودہ حکمران بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دلوانے میں ناکام رہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ ایک برس پہلے تک بھارت کو واہگہ کے راستے افغانستان تک رسائی دینے کےلئے ہمارے حکمرانوں نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے اور اب جبکہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آزادی چاہنے والوں کے ساتھ بات چیت کےلئے تیار ہو چکا تو یہی وقت ہے بھارت پر دبا¶ بڑھا کر اسے کشمیریوں کو حق رائے دہی کےلئے مجبور کیا جا سکے لیکن اس کےلئے ہمارے حکمرانوں کو بھارتی قیادت سے تعلقات کی قربانی دینا ہو گی۔