میں وحدت کالونی کوارٹرز میں اپنے گھر6ڈی میں اخبار دیکھ رہا تھا میرے پاس آٹھ دس اخبارات کا پلندہ آتا ہے۔ میری بیوی اس لئے اعتراض نہیں کرتی کہ ہر ماہ کے بعد ردی میں فروخت کر دیتی ہے۔ دروازے پر دس بارہ خواتین آ کے جمع ہو گئیں ، تقریباً وہ سب سرونٹ کوارٹرز میں کام کرنے والی عورتیں تھیں، کوارٹرز کے ساتھ ایک ایک کمرے میں پورا پورا خاندان رہتا ہے۔ گھر والے کام کے سلسلے میں باہر ہوتے ہیں اور بچے بھی سارا دن کھیلنے کودنے میں مصروف رہتے ہیں۔
کئی وجوہات سے بچے کہیں دور بھی چلے جاتے ہیں، جب شام تک واپس نہیں آتے تو والدین سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے اغوا ہو گئے ہیں۔ لاہور میں208بچوں کے اغوا کے مقدمات درج ہوئے ہیں جن میں سے190خود بخود واپس آ گئے ہیں۔ کچھ پولیس والوں نے برآمد کئے۔
میرے گھر کے باہر بھی ایک شور مچ گیا، اس سے پہلے کہ نعرے لگنے لگتے۔ میرے خلاف بھی نعروں کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ پہلے بھی خواتین و حضرات میرے پاس آتے ہیں۔
ایک دفعہ میرے ڈی بلاک میں ایک چوری کے مقدمے میں پولیس والوں نے غریب عورتوں کو بار بار تھانے بلایا انہوں نے مقدمے کے مطابق کارروائی تو کرنا ہوتی ہے محلے کے لوگ میرے پاس آئے تو میں نے SHOصاحب کو فون کیا کہ عورتوں کو بلا وجہ تنگ نہ کیا جائے۔ انہوں نے مہربانی کی اور اس کے بعد کسی خاتون کو بلا وجہ تنگ نہ کیا۔ میں افسران اور پولیس افسران سے کم کم رابطہ رکھتا ہوں۔برادرم نایاب حیدر سے رابطہ کر لیتا ہوں کہ وہ ہمارے شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ سی سی پی او برادرم امین وینس کا پی آر او ہے میں نے نایاب بچوں کے لئے بھی نایاب سے رابطہ کیا۔
تھوڑی دیر کے بعد4پولیس والے تھانہ وحدت کالونی سے آئے اور مجھے بتایا کہ بچے واپس اپنے گھر پہنچ گئے ہیں، اس کے بعد والدین بھی آئے میں نے انہیں سے اپنے بچوں کی حفاظت کرنے کی تاکید کی۔ پڑھائی سے بیزاری والدین کی عدم دلچسپی اور ماحول کی خرابی کی وجہ سے بچے گھروں میں اپنے آپ کو قیدی سمجھتے ہیں۔ وہ باہر نکلتے ہیں باہر بھی کسی طرح کی صورتحال ان کے مطلب کی نہیں ہوتی تو وہ اور کہیں بھاگ جاتے ہیں اور پھر والدین کو صرف ایک ہی فرض یاد آتا کے تھانے میں جا کے اغوا کا مقدمہ درج کروا دیا جائے جبکہ اس گمشدگی کے لئے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
اس وقت بھی چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے مختلف جگہوں پر400لا وارث بچے رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں کسی نے اغوا نہیں کیا ہے نہ شہر میں کوئی ایسا اغوا کنندگان کا گروہ سر گرم ہے۔ امریکہ میں ایک میاں بیوی شاپنگ کے لئے گئے تو بچوں کو گھر میں چھوڑ گئے پولیس والدین کو پکڑ کے لے گئی انہیں جرمانہ ہوا، تاکید کی گئی کہ آئندہ بچوں کو اکیلا نہ چھوڑیں۔
تھانہ جنوبی چھائونی میں ایک بارہ سال کی بچی نمرہ کے لئے FIRدرج ہونے لگی کہ گھر سے فون آ گیا کہ بچی گھر آ گئی ہے۔ اس نے گھر والوں سے نئے کپڑے مانگے تھے اور ناراض ہو کر نکل گئی، جب دیکھا گیا کہ وہ مناواں پارک میں اکیلی بیٹھی ہوئی تھی۔
یہ ایک سوشل ایشو ہے گھریلو معاملات اور مسائل کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔اس کے لئے ماحول کو مناسب رکھنے کی ضرورت ہے بچوں میں زیادہ تعداد غریب بچوں کی ہوتی ہے اس کے لئے غریبی کو ختم کرنے کی بھی سنجیدہ اور فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کچھ نہ کچھ امیری بھی ختم کر دی جائے تو بہت فائدہ ہو گا۔ گھروں میں ایسی صورتحال حالات پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ بڑوں اور بچوں دونوں کے لئے آسانیاں اور دلچسپیاں پیدا ہوں۔
مختلف ٹی وی چینلز پر بھی ایک ہی قسم کی ڈسکشنز چلتی ہیں جس میں بچوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اب ان روٹین اور بور پروگراموں میں بڑوں کی دلچسپی بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ میڈیا والوں کے لئے بھی موضوعات کا قحط پڑ گیا ہے، بالخصوص بچوں کے لئے کوئی پروگرام کسی ٹی وی چینل پر نہیں ہوتا۔
اچھا جملہ کہنے کا فن ڈاکٹر اظہر وحید کو قبلہ واصف علی واصف سے عقیدت کے صلے میں ملا ہے۔ واصف صاحب اختصار کے سالار تھے ۔ ڈاکٹر اظہر وحید کی نئی کتاب ’’ صرف آغاز‘‘ کا انتساب واصف علی واصف کے نام، جنہیں ڈاکٹر اظہر نے قطب ارشاد کہا ہے اور اپنا مرشد قرار دیا۔ آخر عمر میں واصف نے بھی کالم نگاری شروع کر دی تھی میرے خیال میں یہ فیصلہ عقیدت مندوں نے ان سے کروایا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے ان کی حیثیت کا اعتراف ایک زمانہ کر رہا تھا۔ اس کے بعد ان کی حیثیت ایک کالم نگار کی ہو گئی تھی۔ان کا اعتراف ان لوگوں نے بھی کیا جو اپنے آپ کو آزاد خیال سمجھتے تھے جس میں کشور ناہید سب سے نمایاں ہیں ۔واصف کا مقام ایک بہت بڑے روحانی سکالر کے طور پر ابھرا تھا اور ابھرتا چلا گیا، ہمیشہ کسی کی طرف سے جملہ ہی کوٹ کیا جاتا ہے ، پوری تحریر میں چند جملے ہی آدمی کو یاد رہ جاتے ہیں۔ جملہ اختصار کے اسرار کا امین ہوتا ہے۔ڈاکٹر اظہر وحید نے بھی پہلے پہل جملے لکھے تھے بعد میں کالم لکھنے شروع کر دیئے۔ اس کے کالموں میں زندہ تر خوبصورت اور دل میں اتر جانے والے کئی جملے ہوتے ہیں وہ وراثتی کالم نگار نہیں ہیں، ایسے ہی چند لوگوں کی تحریری پڑھ کر میں نے کہا تھا کہ کالم نگاری سالم نگاری ہے، میری گزارش ہے کہ ڈاکٹر اظہر وحید جملے کہنا بند نہ کرے ایک جملے میں پوری تحریر کہہ دینا اور اس کی تاثیر کو سمیٹ لانا بہت بڑا فن ہے بلکہ فن سے بہت آگے کی چیز ہے۔ لوگوں کو واصف صاحب کا کوئی کالم یاد نہیں مگر کئی جملے یاد ہیں۔ ڈاکٹر اظہر وحید کے کالموں کی کتاب میں سے مجھے کوئی ایک جملہ تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے بڑی مشکل سے کچھ جملے نکالے ہیں ایک جملہ آپ بھی سنیں ’’ ہم مزاج ہونا ہمسفر ہونا ہے‘‘۔