کراچی بدامنی کیس: ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں, مسائل کو حل نہیں کیا جا رہا, چیف جسٹس

Jul 28, 2016 | 18:57

ویب ڈیسک

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ لگتا ہے کہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں معاملات اور مسائل کو حل نہیں کیا جا رہا۔ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہونے۔ لگتا ہے آئی جی سندھ کو مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں؟ عدالت نے سندھ پولیس کی جانب سے 2012ءمیں 50کروڑ روپے کی لاگت سے کراچی میں لگائے جانے والے دو میگا پکسل کے 820 میں سے 803 کیمروں کے خراب ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے ، آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں امن وامان کی صورت بہت ہی خراب ہے اور تفتیش کابنیاد ادارہ پولیس ہے اور پولیس کے پاس جیو فینسنگ کی سہولت نہیں۔عدالت نے اٹارنی جنرل،آئی جی سندھ پولیس، چیف سیکرٹری،ہوم سیکرٹری اور چیئرمین پی ٹی اے کو مسئلہ کا مل بیٹھ کر حل نکالنے کا حکم دیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے عدلیہ،اپنے اور اپنے اہلخانہ کے حوالے سے سوشل،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر چلنے والی مہم کے حوالے سے کیس سے خود کو الگ کر لیا۔کراچی بد امنی عملدرآمد کیس کی سماعت چیف جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے چیف سیکرٹری سندھ کی جانب سے کراچی میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔رپورٹ میں کہا گیا سی ٹی وی کیمروں کا کنٹرول پولیس،کے ایم سی اور سندھ حکومت کے پاس ہے۔شہر میں 2321 سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں یکم اکتوبر 2016ءسے سی سی ٹی وی کیمروں کا کنٹرول پولیس کو دے دیا جائے گا۔ کے ایم سی نے 2008ءمیں دو میگا پکسل کے 168 کیمرے نصب کیے 2014ءمیں 910 کیمرے لگائے گئے جبکہ 2015ءمیںکے ایم سی نے پانچ میگاپکسل کے 225کیمرے لگائے جبکہ 2012ءمیں پولیس نے دو میگا پکسل کے 820 کیمرے لگائے ان کیمروں میں سے صرف 17 کام کر رہے ہیں باقی تمام کیمرے ناکارہ ہوچکے ہیں۔چیف سیکرٹری نے رپورٹ میں کہا تمام صورتحال اور پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے تجویز آئی ہے کہ یکم اکتوبر سے کراچی کے تمام سی سی ٹی وی کیمروں کا کنٹرول کے ایم سی اور سندھ حکومت سے لے کر پولیس کے حوالے کر دیا جائےگا۔عدالت نے چیف سیکرٹری کی رپورٹ پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ 2012ءمیںلگائے گئے 820 کیمروں میں سے 803 ناکارہ ہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ اس پر کتنی رقم خرچ ہوئی۔عدالت کو بتایا گیا کہ 50 کروڑ روپے کی لاگت سے کیمرے لگائے گئے تھے جو کہ نہیں چل رہے ۔عدالت نے آئی جی سندھ سے پوچھا کہ کیا آپ کی رسائی ان کیمروں تک ہے اس پر آئی جی سندھ نے عدالت کوبتایا کہ ہمارے پاس ان کیمروں تک رسائی نہیں یہ سندھ حکومت کے کیمرے ہیں اورجو این جی اوز کی مدد سے بھی کیمرے لگائے گئے ہیں۔ آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ جیو فینسنگ تک رسائی بھی تفتیش کے لیے اہم ہے کراچی میں امن وامان کی صورتحال بہت ہی خراب ہے اور تفتیش کا بنیادی ادارہ پولیس ہے۔پولیس کے پاس جیوفینسنگ کی سہولت نہیں ہو گی تو ہماری تفتیش متاثر ہو گی۔عدالت کے استفسار پر عدالت میں موجود چیئرمین پی ٹی اے کا کہنا تھاکہ جو بھی سیلولر ڈیٹا پولیس اور دیگر اداروں کو چاہیے ہوتا ہے وہ فراہم کیا جاتا ہے ایک متعلقہ ادارے کے پاس یہ سہولیات حاصل ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں معاملات کو حل نہیں کیا جا رہا۔عدالت کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ آئی جی اے ڈی خواجہ نے عدالت کوبتایا کہ اسلام آباد میں 15 ارب روپے کی لاگت سے 10 ہزار سے زائد کیمرے نصب کیے جا رہے ہیں تاکہ اسلام آباد کوسیف سٹی بنایا جائے اس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کیا اسلام آباد میں رہنے والوں کا خون زیادہ مہنگا ہے کہ انہیں محفوظ بنانے کے لیے اتنی بڑی تعداد میں کیمرے اور اتنی بڑی رقم مختص کی جارہی ہے جبکہ کراچی کے لیے کوئی ایساسسٹم نہیں بنایا جا رہا جبکہ جیوفینسنگ میں سندھ پولیس کو رسائی دینے کے حوالے سے عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل،آئی جی سندھ، چیف سیکرٹری سندھ،سیکرٹری داخلہ،چیئرمین پی ٹی اے اور نادرا سمیت تمام متعلقہ حکام مل بیٹھ کراس مسئلہ کا حل نکالیں کہ سندھ پولیس کو کس طرح رسائی دی جا سکتی ہے کہ وہ تفتیشی مراحل میں جیوفینسنگ کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔عدالت نے سماعت 11 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے چیف سیکرٹری کو حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر کراچی میں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ جدید کیمروں کی تنصیب سے متعلق تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جائے۔ جبکہ چیف جسٹس اور ان کے اہلخانہ کے حوالے سے سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر آنے والی خبروں کے حوالے سے چیئرمین پی ٹی اے کی رپورٹ کو عدالت نے مسترد کر دیا تاہم چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے اور میرے اہلخانہ کے بارے میں پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس لیے مناسب نہیں کہ میں بنچ کا حصہ رہوں۔ چیف جسٹس نے خود کو کیس سے الگ کر لیا جبکہ اس معاملہ کی سماعت تین رکنی بنچ کرے گا۔

مزیدخبریں