اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت +صباح نیوز) جماعت اسلامی پاکستان نے پانامہ کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں اپنی معروضات جمع کرا دیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کےوکیل توفیق آصف کے ذریعے جمع کرائی گئی 5 صفحات پر مشتمل معروضات میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ان دو ججوں کے فیصلہ کی اپنی جگہ پر اہمیت موجود ہے تاہم پانامہ کے پانچ رکنی بینچ کے تین ججز کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس میں متعلقہ ریکارڈ اور مواد تلاش کیا جس میں مے فیئر پراپرٹیز اور سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے 13 سوالات کے جوابات دیئے گئے جو کہ مقدمہ کے فریقین کے خلاف بطور ثبوت موجود ہیں اور ان کے جرم کے خلاف کارروائی کے لئے سفارشات بھی دی گئی ہیں۔ جماعت اسلامی کی معروضات کے مطابق کیپیٹل ایف زیڈ کی کمپنی مقدمے کے فریقین کی طرف سے ظاہر نہیں کی گئی تھی۔ وزیراعظم کا اقاموں کا بھی اعتراف کر لیا گیا ہے اور وزیراعظم مذکورہ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین بھی ہیں اس کمپنی سے تنخواہ لینے کے بارے میں حقائق چھپائے گئے ہیں اور عدالت میں جھوٹی دستاویزات جمع کروائی گئیں۔ جماعت اسلامی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ لندن فلیٹ کی خریداری اور جدہ مل کی فروخت کے حوالے سے وزیراعظم کے خاندان کا موقف سچ ثابت نہیں ہوا جبکہ حسین نواز کی طرف سے وزیراعظم کو 10 لاکھ روپے فراہم کرنے کا بھی ثبوت نہیں دیا گیا۔ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ آنے کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ وزیراعظم نے آئین کے آرٹیکل 65 اور 91 کی خلاف ورزی کی ہے جماعت اسلامی کے مطابق قطری لیٹر سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ شریف خاندان لندن فلیٹس پر 1993ءسے قابض ہے اور 1993ءسے 1996ءکے دوران یہ فلیٹس خریدے گئے جبکہ جمع کرائی گئی ٹرسٹ ڈیڈ بھی درست نہیں کیونکہ وہ توثیق شدہ نہیں تھی۔ جواب کے مطابق مریم نواز کے آف شور کمپنیوں کا بینیفشل آنر ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ معروضات میں کہا گیا ہے کہ دستاویزات کی ٹمپرنگ کے لئے کیلیبری فونٹ کا استعمال کیا گیا جبکہ 1993ءسے 96ءکے دوران وزیراعظم کے بچے کم عمر تھے۔ جماعت اسلامی کے مطابق جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد کوئی وجہ نہیں کہ وزیراعظم کو آئین کے آرٹیکل 62(1f) کے تحت وزیراعظم کو نااہل کیا جائے کیونکہ اگر کوئی اس ضمن میں شک و شبہ موجود تھا تو وہ جے آئی ٹی رپورٹ میں دور ہو چکا ہے۔ جماعت اسلامی کے مطابق جب جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تو اس وقت فریقین کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ اس لئے جے آئی ٹی کی طرف سے اکٹھا کیا گیا مواد وزیراعظم کی نااہلی کے موقف کو مضبوط کرتا ہے۔ معروضات میں کہا گیا ہے کہ مقدمہ انکیوزی ٹوریل نیچر کا ہے۔ اس لئے معاملات کو ثابت کرنے کا بار مدعا علیہ پر ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے جے آئی ٹی کے سامنے معلومات نہ ہونے کا اعتراف کیا حالانکہ یہ تمام چیزیں ان کے علم میں ہونی چاہئیں تھیں۔ وزیراعظم کی طرف سے چیزیں چھپانے پر ان کی نااہلی بنتی ہے۔ جماعت اسلامی نے موقف اپنایا ہے کہ جے آئی ٹی کی فائنڈنگ کو مسترد کرنے کے لئے کوئی مضبوط وجہ نظر نہیں آتی کیونکہ اس نے عدالت کے 13 سوالوں کا جواب دے دیا ہے جس سے وزیراعظم کی نااہلی کا کیس بنتا ہے۔ جماعت اسلامی نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے وزیراعظم کی طرف سے رویہ اپنایا گیا اس پر وزیراعظم اور ایم این اے رہنے کے اہل نہیں رہے۔ عدالت آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت وزیراعظم کو ناہل کرنے کا ڈیکلریشن دے سکتی ہے اور عدالت کو یہ معاملہ کسی اور فورم کو نہیں بھیجنا چاہئے۔ معروضات میں محمد اظہر بنام وفاق کیس کے حوالے کے ساتھ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے مقدمہ اور دوہری شہریت کے حوالے سے مقدمات کی نظیر بھی دی گئی ہے۔ معروضات میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں گذشتہ 6,7 سال کے دوران ارکان پارلیمنٹ کو آرٹیکل 62-63 ایک ایف کے تحت نااہل کرنے کا دائرہ اختیار حاصل کیا ہے۔
جھوٹی دستاویزات دی گئیں، شریف فیملی کا مﺅقف غلط ثابت ہوا، نااہلی کا فیصلہ دینا چاہئے
Jul 28, 2017