چند روز بعد نوائے وقت کے ادارتی صفحہ پر آب و تاب سے شائع ہو گیا۔ وہ دن زندگی کی چند بڑی خوشیوں میں شمار کرتا ہوں۔ سچی بات ہے پائوں زمین پر نہیں لگتے تھے۔ یوں سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہفتے میں ایک یا دو مضامین ادارتی صفحہ پر شائع ہونے لگے۔ فیملی میگزین شائع ہوا تو میرا ایک مضمون نظامی صاحب کے پاس موجود تھا۔ وہ انہوں نے مرحوم علی سفیان آفاقی کے پاس بھجوا دیا اور یہ بھی ہدایت کی کہ ان سے ملتان کی سیاسی ڈائری لکھوایا کریں۔ یہ ان کی ایک اور بڑی شفقت تھی۔ یہ سلسلہ الحمداللہ آج تک جاری ہے۔ دوران ملازمت کئی ملاقاتیں ہوئیں ہمیشہ شفقت سے پیش آئے۔ ایک دفعہ اپنی کچھ کتابیں پیش کرنے کیلئے حاضر ہوا۔ سید ارشاد عارف نے اجازت لی اور مجھے ساتھ لے کر ان کے پاس چلے گئے۔ احساس ممنونیت سے میری نظریں جھک گئیں جب تھوڑا سا اٹھ کر انہوں نے اپنے ایک عام کارکن کی عزت افزائی فرمائی اور محترم عارف نظامی نے جو وہاں موجود تھے کھڑے ہو کر ہاتھ ملایا۔ ایک دفعہ میں ملتانی سوہن حلوہ لے کر ان کی خدمت میں پیش ہوا مگر انہوں نے کہا میر ا اصول ہے کہ میں سٹاف ممبر سے کوئی گفٹ نہیں لیتا۔ میرے اصرار پر انتہائی شفقت سے فرمایا آپ دفتر میں کسی دوست کو دے دیں۔ میں نے عرض کی کہ ان کے لئے الگ سے لایا ہوں۔ تھوڑا سا مسکرا کر کہنے لگے اس ملاقات کے بعد کہاں جائیں گے میں نے کہا گوجرانوالہ میں میرے قریبی عزیز ہیں سید اکرم گیلانی ان سے ملنے جانا ہے۔ پوچھا وہ مجھے جانتے ہیں؟ میں نے کہا آپ کو کون نہیں جانتا۔ فوراً کہنے لگے میں نے آپ کا تحفہ قبول کیا آپ یہ میری طرف سے شاہ صاحب کو دے دینا۔ ملتان میں جب بھی آتے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ میں نے ایک دفعہ رات کے وقت مزار شاہ رکن عالمؒ کی انتہائی خوبصورت تصویر بنائی اور نظامی صاحب کی ملتان آمد پر انہیں پیش کی۔ بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے کمال کی تصویر بنائی ہے۔ آپ نے ایک دفعہ ان کی ہدایت پر فیملی میگزین کے لئے محترمہ مجیدہ وائیں اور محترمہ شاہدہ ممتاز دولتانہ کے انٹرویو کئے جس پر انہوں نے شیخ ریاض پرویز مرحوم کے ذریعے تحسین فرمائی۔ ممتاز دولتانہ کے انتقال اور قل خوانی کی کوریج کی ذمہ داری بھی جناب ریذیڈنٹ ایڈیٹر نے محترم نظامی صاحب کی ہدایت پر میرے سپرد کی۔ محترم نظامی صاحب نے اپنا ایک انٹرویو جو ایک انگریزی جریدہ میں شائع ہوا تھا۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر کو بھیجا کہ ترجمہ کروا کر شائع کر دیں۔ اس کے ترجمہ کا شرف بھی مجھے حاصل ہوا۔ اس میں نواب امیر محمد خان گورنر مغربی پاکستان سے ملاقات کا ذکر بھی تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ نے اپنے بڑے بھائی حمید نظامی مرحوم کا راستہ چھوڑا تو آپ میری نظر سے گر جائیں گے جملہ تھا کہ میری نظر میں آپ Less Than A Man ہوں گے۔ میں نے اس کا ترجمہ کیا کہ میں آپ کو ’’مرد میدان‘‘ نہیں سمجھوں گا۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے ذریعہ آپ نے خصوصی شاباش میرے لئے بھیجی۔ بعد میں مجھے کسی نے بتایا کہ گورنر صاحب نے ’’جنا‘‘ کا لفظ بولا تھا۔ چلتے چلتے ایک دو دلچسپ واقعات کا بھی ذکر ہو جائے۔ بہاولپور سے ایک صاحب نظامی صاحب کے ملنے والے تھے۔ مضامین شائع کروانے کے بہت شوقین تھے۔ ہم ذرا پس و پیش کرتے تو نظامی صاحب کا ریفرنس دے دیتے۔ ریذیڈنٹ ایڈیٹر صاحب کی ہدایت تھی کہ کوشش کریں ان کا کوئی مضمون مس نہ ہو جائے۔ ایک روز ٹیلیفون آپریٹر عبدالمجید اویسی نے مجھے فون ملوا دیا کہ نظامی صاحب لائن پر ہیں اور غصے میں ہیں کوئی اور ذمہ دار دفتر میں نہیں آپ بات کر لیں۔ نظامی صاحب نے کہا کہ فلاں صفحہ آپ کرتے ہیں میں کرتا تو نہیں تھا مگر ایسے ہی منہ سے نکل گیا کہ جی میں کرتا ہوں۔ کہنے لگے کیا رطب و یابس چھاپ رہے ہیں یہ کون صاحب ہیں جن کے مضمون آئے روز چھپ رہے ہیں۔ میں نے کہا جی وہ تو آپ کا نام لیکر ہم پر رعب ڈالتے ہیں۔ کہنے لگے آپ ایڈیٹر ہیں آپ کو نہیں پتہ کہ کیا چیز چھپنی چاہیے کیا نہیں۔ آپ اپنے فیصلے ایڈیٹر بن کر کریں۔ میرے نام سے متاثر نہ ہوا کریں۔ ایک دفعہ کسی کوتاہی پر انہوں نے ایک نامہ نگار کو معطل کرنے کی ہدایت کی وہ نامہ نگاران کا چہیتا تھا۔ روزانہ فون کرتا تو نظامی صاحب ٹال دیتے کہ تمہارا معاملہ ملتان آفس سے ہے پھر وہ مجھے یا ریذیڈنٹ ایڈیٹر کو فون کر کے تنگ کرتا۔ ایک روز نہ جانے کیسے میرے منہ سے نکل گیا کہ تمہارے لئے حکم عالم بالا سے نازل ہوا تھا میں کیا کرسکتا ہوں اس نے فوراً نظامی صاحب سے فون ملایا کہ مجھے ڈسٹرکٹ نیوز ایڈیٹر نے بتایا ہے کہ تمہیں نظامی صاحب نے معطل کیا ہے۔ نظامی صاحب نے فوراً شیخ ریاض پرویز کو فون کیا کہ شیخ صاحب آپ کا ڈی این ای تو کچا بندہ نکلا اس کو 100 روپے فائن کر دیں۔ کالم لکھنے کا شوق ہوا تو ریذیڈنٹ ایڈیٹر جبار مفتی سے درخواست کی کہ نظامی صاحب سے اجازت لے دیں۔ انہوں نے فوراً اجازت دے دی۔ اس طرح ’’دخل درماکولات‘‘ کے ’’لوگو‘‘ کے ساتھ طویل عرصہ تک ادارتی صفحہ پر میرا یہ کالم چھپتا رہا۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ محترم نظامی صاحب بیشتر مضامین خود پڑھتے تھے اور میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میرا کسی مضمون سے ایک لفظ بھی کاٹا یا تبدیل نہیں کیا گیا۔ نیوز ڈیسک کے پریشر کے باعث لکھنے لکھانے کے کام میں تسلسل برقرار نہیں رہا۔ محترم نظامی صاحب بہترین ایڈمنسٹریٹر تھے اور ان کی اس حوالے سے دو خصوصیات ایسی ہیں جو ہر ایڈمنسٹریٹر میں ہونی چاہئیں۔ ایک یہ کہ وہ چین آف کمانڈ پر سختی سے عمل کرتے تھے۔ کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے ’’تھرو پراپر چینل‘‘ سے ہٹ کر براہ راست مداخلت کی ہو۔ اس حوالے سے ان گنت واقعات کا میں عینی شاہد ہوں اور دوسری یہ کہ اپنے احکام پر مکمل عملدرآمد کرواتے چاہے اگلے ہی روز متاثرہ شخص کی درخواست پر معاف بھی کر دیتے۔ انتہائی رحم دل تھے اور ضرورت مندوں کی امداد فراخدلی سے کرتے تھے۔ بے شمار واقعات ہیں۔ میں ہائی سکول کا طالب علم تھا ایک بیوہ عورت جس کا کوئی مالی سہارا نہیں تھا اپنی بیٹی کی شادی کیلئے بے حد پریشان تھی مجھے نہ جانے کیسے جناب نظامی صاحب کا خیال آیا اور میں نے ایک خط ان کو لکھا جس میں بیوہ عورت کی مجبوریوں کا مختصر احوال تھا۔ آپ یقین کریں کہ ایک ہفتے بعد ہی نظامی صاحب نے 2 ہزار روپے کا ڈرافٹ بھجوا دیا۔ بغیر کسی تحقیق کے اور وہ رقم اتنی کافی تھی کہ سادگی سے شادی کے بعد اتنی رقم بچ گئی کہ انہوں نے ایک پیڈسٹل پنکھا لے لیا جو ان دنوں کسی کسی گھر میں ہوتا تھا۔ (ختم شد)