جمہوری ممالک میں عام انتخابات کا انعقاد کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیںہوا کرتا۔ اکثریت کو تو قطعی طورپر اس کا علم نہیں ہوگا کہ غیر منقسم ہندوستان کو دو ٹکڑے کرکے ایک ٹکڑے کو پاکستان کا نام دینے کیلئے جو انتخاب ہوئے تھے‘ اس میں کس قدر شفافیت‘ غیر جانبداری‘ اصول پرستی‘ دعوﺅں کی سچائی‘ بے لوث اور بے داغ قیادت کی رہنمائی ‘ دو قومی نظریہ کو جزو ایمان قرار دیتے ہوئے قوم کے حال کی بہتری اور آئندہ نسلوں کیلئے پھلنے پھولنے کے یکساں مواقع کے راستوں کو رکاوٹوں سے پاک کرنے کا جذبہ کارفرما تھا۔ اسلامیان ہند کے ایسے پرآشوب اور نازک و سنگین حالات میں بھی دھرتی ایسے عناصر سے خالی نہ رہی جنہوں نے حصول پاکستان کیلئے فیصلہ کن انتخابات کے موقع پر تاریخ کے فیصلے کو بدلنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ جذبہ بغض¿ مخاصمت میں صفحوںکے صفحے اپنے بے فقر دلائل سے سیاہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کام کی انجام دہی کیلئے غیروں کیساتھ ساتھ اپنے بھی ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے میں مصروف رہے۔ غالباً اسی میں وہ اپنے حالات کی بہتری سمجھے ہوئے تھے۔ چونکہ اسلامیان ہند کیلئے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان جسے ہندو ”گائے ماتا“ کام نام دیتے تھے‘ کا دو ٹکڑوں میں تقسیم ہونا مقدر ہو چکا تھا اور اس کی بنیادی وجہ دو قومی نظریہ تھا جس کا جھنڈا عظیم مدبر سیاستدان حضرت قائداعظم نے کسی ذاتی غرض‘ لالچ اور ہوس اقتدار کی تمنا کے پوری کرنے کیلئے نہیں بلکہ ایک خطہ زمین کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کیلئے بلند کیا تھا۔ یہی وہ بنیادی وجہ تھیںجن کی بنا پر ان کے ساتھی بانیان پاکستان کیلئے ان کی ذات گرامی سیاست سمیت صداقت و شجاعت کے میدان میں رول ماڈل قرار پائی۔ بلاشبہ مسلم صحافت میں رہنماﺅں کیلئے یہی معیار قرار پایا اور اس معیار پر پورا نہ اترنے والے عوام کی نظروں میںرہبروں کا مقام پانے میں ہمیشہ ناکام رہے۔ انہی حقائق کی بنیاد پر جب حضرت قائداعظم کی بے داغ اور بے لوث قیادت میں تحریک پاکستان کسی بحر بیکراں میں بپھری ہوئی منہ زور موجوںکی طرح غیر منقسم برصغیر کے دروبام پر لرزہ طاری کر رہی تھی کہ 1946ءکے فیصلہ کن انتخاب کے موقع پر برہمن ازم کے پرچارک نظریہ پاکستان سے مخاصمت رکھنے والے سرمایہ دار ہندوﺅں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے تھے اور پرنٹ میڈیا پر مخصوص مفادات کی حامل ”عطائیوں“ کی جو کھیپ منڈی کا مال بنی ہوئی تھی اسے بے دریغ اور صداقت و امانت کی امین مسلم قیادت کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے راستے پر لگا دیا گیا۔ تاریخ حصول پاکستان کیلئے منعقد ہونے والے ماضی کے ان انتخابات میں پرنٹ میڈیا میں در آئے ‘ ”عطائی قلمکاروں“ کی تضحیک آمیز تحریروں سے بھری ہوئی ہے۔ ایسی ایسی تحریریں جن مسلمہ مسلم قیادت پر دروغ گوئی اور قول و فعل کے تضادات کے بہتان کے طومار باندھے گئے‘ نام کے اپنوں نے غیروں کی خوشنودی اور ”ضرورتوں“ کیلئے اپنی”طوطا مینا“ نما کہانیوں کو ایسے ایسے عنوانات دینے شروع ئے جن سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا کہ رہنمایان امت کی نظریہ پاکستان کی بنیاد پر جدوجہد محض ایک خواب ثابت ہوگی۔ ایسی نگارشات میں اس دور کے عطائی قلم کاروں میں طوطا فال نکالنے والے قسم کے بزعم خویش نجومیوں‘ ہندو کانگریس سے گٹھ جوڑ رکھنے والے نیشنلسٹ مسلمانوں اور کچھ سیکولرزم کے حامیوں کے حاشیہ نشین حواری اور خوشامد پرستوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس کھیپ کی تقویت کیلئے پرنٹ میڈیا کے محاذ پر ہندو‘ سکھ اخبارات اور ان کے لکھاری تھے۔ غیر منقسم برصغیر میں بسنے والی سب سے بڑی دو قوموں کی حالت کچھ اس طرح تھی کہ ہندو اکثریت عددی اعتبار سے بڑی قوم ہونے کے باعث مسلمانوں کی قریباً نو سالہ غلامی میں زندگی بسر کرنے کے زخم چاٹ رہی تھی۔ اگرچہ اس بے مروت قوم کو مسلمانوں کے اس طویل عہد حکمرانی میں اقلیتوں ایسا سلوک کیا گیا نہ ان سے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ناانصافیوں سے واسطہ پڑا‘ انہیں ایسے سربمہر میں مسلمانوں کے سے حقوق حاصل رہے۔ انہیں پوری طرح مذہبی آزادی حاصل رہی۔ انہیں اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر‘ ان کی دیکھ بھال اور انہیں آزادانہ طورپر عبادت کرنے اور اپنے عقائد کے مطابق مذہبی فرائض انجام دینے کی مکمل آزادی رہی مگر ہندوستان میں مسلمانوں کے عہد حکومت کے بعد فرنگی دور حکومت میں جہاں مسلمانوں پر جبر تشدد اور مظالم کے پہاڑ ٹوٹے اور فرنگی سامراج نے ایک خوفناک سازش کے تحت مسلمانوں پر تعلیم‘ اعلیٰ ملازمتوں اور صنعتوں کے قیام کے دروازے بند کرکے ایسے تمام شعبوں میں ہندوﺅں کو آگے بڑھانے کیلئے ان کی سرپرستی کی‘ اس کے نتیجے میں مسلمان بحیثیت قوم پسماندگی اور محرومیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتے چلے گئے۔ ڈیڑھ صدی کی غلامی نے اس قوم سے زندگی کی تمام رعنائیوں کو چھین لیا۔ فرنگی سامراج کی سیاسی اور ہندوﺅں کی اقتصادی غلامی نے مسلمانوں کو ذہنی طورپر مفلوج سا بنا دیا تھا۔ یقینا یہی وجہ تھی کہ قدرت برصغیر ہند کے مسلمانوں کی زبوں حالی برداشت نہ کر سکی اور غیرملکی حکمرانوں اور ان کی سرپرستی میں برصغیر کی اقتصادیات پر تسلط جمانے کے باعث ہندوستان کی دولت پر قابض ہندو قوم کو مالا بار ہل سے اٹھنے والی اس آواز نے لرزہ براندام کرکے رکھ دیا کہ ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیں ہیں اور ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ اب انہی دو قوموں کے مابین ہوگا۔ دو قومی نظریہ‘ درحقیقت اس وقت کے ہندوستان میں ایک ایسا نعرہ تھا جو انقلاب انگیز تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ہندوستان کے نقشے کو تبدیل کرنے کی خاطر 1946ءکے انتخاب کا انعقاد ہوا تھا۔
برصغیر کے نقشے میں پاکستان کے قیام کی تبدیلی کی حامی بلکہ اس کی بے داغ قیادت کی آواز پر بڑی بڑی نامور مقتدر دینی ہستیاں لبیک لبیک کہتے ہوئے تحریک پاکستان کے ہر اول دستے کا حصہ بن گئیں۔ انہوں نے ہندو کانگریس کی سرمایہ دارانہ سیاست کا پول کھول کر رکھ دیا۔ حضرت مولانا حسرت موہانی اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی سمیت ان دیگر قابل احترام ساتھیوں کا نظریہ پاکستان کی بنیادپر حصول پاکستان کی تاریخ ساز جدوجہد میں ملک کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے عملدار حضرت قائداعظم کی قیادت میں سرگرم عمل ہو جانا کوئی معمولی قسم کی بات نہیں تھی۔ ایسی صورت حال نے غیر مقسم برصغیر میں ہونے والی تبدیلی پر مہرثبت کر دی تھی۔ مگر ایسے ہیں بھی مسلمان قوم کو ہندو بنیوںکے سودی لٹیرا نظام سے نجات دلانے کی مسلم قیادت جو عظیم الشان جدوجہد کر رہی تھی ان کی حوصلہ شکنی اور مسلم قوم کو گمراہ کرنے کے لئے انتخابات کے موقع پر ایسے ایسے تجزئیے اور قلم کے شوشے دیکھنے میں آتے رہے۔ جن کے عنوانات خود بولتے تھے کہ یہ طرز تحریر کہاں سے تجویز ہوا ہے اور اس طرز نگارش سے کن کن حالات کو سنوارا گیا۔ سڑک پر دریاں بچھائے بیٹھے ”طوطا فال“ نکالنے پر رزق کمانے والے ”عطائی قلمکاروں“ میں گھس گئے۔ انہوں نے 1946ءکے انتخابات کے حوالے سے مسلمان قیادت کے لئے تکلیف دہ استعارے استعمال کر کے ایک عالم کا دل دکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ دام کھرے کرنے کے لئے اپنے سرپرست ہندو بنیوں کا فیاضی کے قصیدے لکھ کر ان کی کامیابی کو حتمی قرار دیا۔ مسلمانوں کو معاشی اور اقتصادی طور پر غربت سے نیچے کی لکیر تک بدحال کرنے والے ہندو کانگریسی کے سیٹھوں کو قوم کا نجات دہندہ کے لقب سے نوازاگیا۔
حالیہ انتخابات ‘ 1946ءکے انتخابات کے آئینے میں؟
Jul 28, 2018