مقدرات کے سفر کی کہانی

آجائیں‘ کھانا لگا دیا ہے… بیگم کی آواز ہمیں کافی دور سنائی دی لیکن اسکی پرواہ کئے بغیر ہم کتاب میں غرق رہے۔ تھوڑی دیر بعد بیٹی کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ بابا… کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے‘ سب انتظار کررہے ہیں۔ ہم نے اسکی آواز پر بھی کان نہ دھرے اور کتاب میں مگن رہے۔ اس وقت ہم کتاب کے ان اوراق کا مطالعہ کررہے تھے‘ جن میں مصنف نے جہاز کے اندر کا ماحول اس طرح بیان کیا تھا کہ ہم اس میں گم ہوکر رہ گئے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے: ’’ایسے خوبصورت مناظر آنکھوں کو پہلے دیکھنے کو نہیں ملے تھے۔ جہاز نے نیچے کی سمت بڑھنا شرو ع کر دیا۔ ایک مقام پر پانی کے درمیان کافی دور تک سبزہ نظر آیا۔’’یہی مالے ایئرپورٹ ہو گا‘‘۔ ایک دوست نے اطلاع دینے کے انداز میں آواز بلند کی مگر جہاز وہاں سے آگے گزر گیا۔ ’’پائلٹ راستہ تو نہیں بھول گیا‘‘ دوسری آواز آئی۔ ’’نہیں جہاز بائیں جانب سے چکر لگا کر یہیں پر اترے گا‘‘۔ اعتماد سے بھری ہوئی تیسری آواز‘ جیسے یہ صاحب پہلے بھی مالدیب آچکے ہوں مگر قیافے غلط ثابت ہوئے۔ دو تین جزیرے مزید گزر گئے۔ جہاز آگے بڑھتا رہا… کچھ لمحوں بعد کانوں سے ٹکرانے والی آواز میں ڈانٹ شامل تھی۔ بیگم کی گرجدار آواز نے ہمارے سحر کو اس طرح توڑا کہ یقین جانیئے لینڈ کئے بغیر ہی ہم جہاز سے زمین پر اتر آئے۔ جی ہاں! ایسا ہی سحر سعید آسی صاحب کے اس پورے سفرنامہ میں قاری کو جکڑے رکھتا ہے۔
سعید آسی صاحب کے اس سفرنامہ کا شمار ان چند خوبصورت سفرناموں میں ہوتا ہے جو میری نظر سے گزرے۔ عطاء الحق قاسمی‘ مستنصر حسین تارڑ‘ اشفاق احمد اور ابن انشاء وہ نامور ادیب ہیں جن کی مسحور کن تحریریں آج بھی لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہیں۔ آسی صاحب کا یہ سفرنامہ بھی میں نے انہی سفرناموں کی فہرست میں رکھا ہے۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ انکے اس سفرنامہ کا سرورق بنانے کا اعزاز میرے حصے میں آیا۔ جسے قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل نے انتہائی خوبصورت کاغذ پر شائع کیا ہے۔ یہ سعید آسی صاحب کا تین ممالک مالدیب‘ برونائی اور انڈونیشیا کا مشترکہ سیاحت نامہ ہے۔ عنوان دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ انکی شاعری کا مجموعہ ہے۔ آسی صاحب نے اس کتاب کا انتساب اپنے ہاتھوں کی لکیروں کے نام کچھ اس طرح تحریر کیا ہے۔ ’’مجھے اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میرے مقدرات کے سفر کی کہانی رنگین سے زیادہ سنگین ہے‘ مجھے بیرونی سفر کا کم کم ہی موقع ملا ہے مگر جتنے بھی سفر طے ہوئے‘ اس میں کوشش یہی رہی کہ جس دھرتی پر قیام ہے‘ وہاں کی معاشرت‘ رہن سہن‘ تہذیب و ثقافت اور طرز حکمرانی کا اپنے وطن کے ساتھ موازنہ کرکے اچھائی اور برائی کا کھوج لگایا جائے۔ اپنے اسی مشاہدے اور تجسس کو لفظوں کی زبان دے کر اوراق میں سموتے سموتے ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ کی شکل سامنے آگئی۔
آسی صاحب اپنی اس لگن میں کس حد تک کامیاب ہوئے‘ یہ فیصلہ قاری پر چھوڑتے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ ان کا یہ سفرنامہ قدم قدم پر تجسس لئے ہوئے ہے۔ اس سفر میں انہوں نے کس گہرائی سے اپنے اردگرد کے ماحول کو پرکھا‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پانی میں فراٹے بھرتی فیری سے اچھلنے والے پانی کے ان قطروں کی شرارت سے بھی قاری کو محروم نہیں کیا‘ جو اچھل اچھل کر فیری کے شیشوں سے اندر آرہے تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ سفرنامہ اپنے اندر کتنی دلچسپیاں سموئے ہوئے ہے۔ سعید آسی صاحب بہت کچھ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی ہیں اور شاعر کی طبیعت انتہائی حساس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر اپنے دل پر پڑے منوں بوجھ کو اشعار کی چند سطروں کی مدد سے اتار پھینکتا ہے۔ انہوں نے کالے پانی کے بارے میں اس طرح تحریر کیا جسے پڑھ کر دل سے وہ خوف جاتا رہا جو کبھی کالے پانی کی سزا سے متعلق سنا کرتے تھے۔ انکے انداز تحریر نے کالے پانی کو ایک خوبصورت پکنک پوائنٹ کے طور پر پیش کیا ہے ‘ کہتے ہیں ’’آج اگر کوئی بددعا دے کہ ’’جا تجھے کالا پانی نصیب ہو‘‘ تو اس کو عطیہ خداوندی سمجھ کر قبول کرلینا چاہیے کیونکہ یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔‘‘ ان کا پہلا رخت سفر مالدیب ‘ دوسرا برونائی اور تیسرا انڈونیشیا کی طرف ہے۔ اس تمام تر سفر میں انہوں نے کیا دیکھا‘ مالدیب میں کیا ہوا‘ برونائی کو کیسا پایا اور انڈونیشیا میں کیا خصوصیات ہیں‘ ان سب کا خلاصہ اگر یہاں تحریر کر دیا جائے تو یہ قاری کے ساتھ نہ صرف زیادتی ہوگی بلکہ کتاب کا تجسس قبل از وقت توڑنے کے مترادف ہوگا۔ ان کا اسلوب اتنا دلکش ہے کہ ان کا تحریر کیا ہر واقعہ ایک داستان معلوم ہوتا ہے۔
سفرکی باریکیاں اور پیش آمدہ یادگار واقعات کو سعید آسی صاحب نے اتنے خوبصورت انداز سے قرطاس پر بکھیرا ہے کہ قاری عرصے تک خود کو اسکے سحر سے نکال نہیں پائے گا۔ یہی وہ ڈھب ہے جو سعید آسی صاحب سے نئے لکھنے والوں کو سیکھنا چاہیے۔ اس سفر نامہ کے بارے میں لکھتے وقت ذہن میں مسلسل عابدہ پروین کی گائی ہوئی یہ غزل گونج رہی ہے…؎
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
سعید آسی جیسے لوگ اس قوم کیلئے واقعی نایاب ہیں‘ ان سے علم کے خزانے جتنے ہو سکیں‘ سمیٹ لینے چاہئیں۔ کسی نے ٹھیک ہی لکھا ہے کہ ’’سعید آسی اپنے اندر سینکڑوں واقعات اور معلومات کا خزانہ رکھتے ہوں گے اور انہیں اپنی یہ یادداشتیں کتابی شکل میں ضرور شائع کرنی چاہئیں کیونکہ اس سفرنامے کے بعد ایک نیا سعید آسی ہمارے سامنے آیا ہے۔‘‘ اگر آسی صاحب اپنی یادداشتوں اور واقعات کو کتابی شکل دینے کا اہتمام کرتے ہیں تو انکی یہ یادداشتیں ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہونگی۔ پاسپورٹ اور ویزہ لگوانے کیلئے قطار میں کھڑے ہونے کے جھنجھٹ سے آزاد ہو کر خطیر رقم خرچ کرنے کے بجائے صرف ایک کتاب کی قیمت پر اگر گھر بیٹھے سیر و تفریح سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل جائے تو قاری کو اور کیا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن