عمران خان کے دورۂ امریکہ نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ اسکی وجہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کیلئے ثالثی کی پیشکش ہے۔ یہ بات جس انداز میں ہوئی ہے اور صدر ٹرمپ نے جس گرمجوشی سے اس کردار کو ادا کرنے کی حامی بھری ہے، اس سے بھارت میں ایک بھونچال آگیا ہے۔ عام اندازوں کیمطابق اس دورے کا اصلی ہدف پاک امریکی تعلقات میں کئی برسوں سے جاری غیر معمولی سرد مہری اور تلخی کو دور کرنا تھا۔ کشمیر کا مسئلہ بہت ہوتا تو رسماً اس کا ذکر ہوجاتا اور امریکہ کیطرف سے بھی واجبی سا اظہار ہوتا کہ وہ اپنی کوشش کریگا لیکن اگر بھارت اس کردار کو قبول نہیں کرتا تو اس کیلئے ایساکرنا ممکن نہیں ہوگا۔ لہذا اس ہنگامہ خیز پیش رفت کو سمجھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم دونوں لیڈروں کے درمیان گفتگو کی تفصیل قارئین کے سامنے رکھیں تاکہ وہ پس منظر واضح ہوجائے جس میں صدر ٹرمپ نے برسر عام کردار ادا کرنے کا ذکر کیا۔
صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کی غیر معمولی پذیرائی کرتے ہوئے اوول آفس میں ان کا خیر مقدم کیا اور فوراً بعد پریس اور میڈیا کے سامنے نہایت بے تکلفی سے بات چیت شروع کردی۔ یہ نشست، جو عموماً مختصر ہوتی ہے، غیر معمولی طوالت اختیار کرگئی۔اس کا ایک بڑا حصہ انکی مقامی سیاست یا دیگر خارجہ امور سے متعلق تھا۔ چند ابتدائی کلمات کے بعد وزیر اعظم کو ایک طویل انتظار سے گزرنا پڑا کیونکہ صدر ٹرمپ دیگر امور پر گفتگو کررہے تھے۔ اور ایک موقع پر تو صدر ٹرمپ اس پریس ملاقات کو ختم کرنیوالے تھے جب انہوں نے وزیر اعظم کیطرف دیکھ کر یہ استفسار کیا کہ "کیا خیال ہے اب اسے ختم کردیں یا آپ چاہتے ہیں کہ دو سوال اور لے لیے جائیں؟ کیا آپ ان میں سے کسی کا سوال لینا چاہتے ہیں؟"۔ قبل اسکے کہ وزیر اعظم اس کا جواب دیتے ایک صحافی نے ایک سوال ان کیطرف منتقل کردیا۔ یہ سوال افغانستاں میں جنگ کے خاتمے اور اس میں پاکستان کے ممکنہ کردار سے متعلق تھا۔ وزیر اعظم نے اس کا موثر جواب دیا اور پاکستان کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
اسکے بعد بارش کا وہ پہلا قطرہ گرا جو ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ اگلا سوال یہ تھا: اس خطے میں امن کو خطرہ یقیناً افغان مسئلے کیوجہ سے ہے، لیکن ایک اور دیرینہ مسئلہ جو جنوبی ایشیا کی سلامتی و امن کیلئے خطرہ ہے وہ مسئلہ کشمیر ہے ، جو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود حل نہیں ہوسکا ہے اور نہ ہی امریکی کوششوں سے ایسا ہوا ہے، باوجودیکہ امریکہ نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی حمایت کی تھی۔ تو آپ اس سلسلے میں صدر ٹرمپ کے سامنے کیا گذارشات رکھنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ ان سے مداخلت کی استدعا کریں گے جہاں ایک ملین لوگ ہلاک ہوچکے ہیں؟
وزیر اعظم نے جواب میں کہا : "میں صدر ٹرمپ سے کہوں گا کہ آپ دنیا کے طاقتور ترین ملک کے صدر ہیں اور آپ برصغیر میں امن کیلئے سب سے موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اس خطے میں ڈیڑھ سوا رب انسان رہتے ہیں۔ یہ سب لوگ مسئلہ کشمیر کے مغوی ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت صدر ٹرمپ کی قیادت ہی ان دونوں ملکوں کو قریب لاسکتی ہے۔ میرے اپنے نقطہ نظر سے میں آپکو بتا سکتا ہوں کہ ہم نے بہترین کوششیں کی ہیں۔ ہم نے بھارت کو ہر طرح سے پیغام بھیجا ہے کہ وہ گفتگو کا آغاز کرے، اور گفتگو سے باہمی مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے اس سلسلے اب تک کوئی پیش رفت نہیںہوئی۔ میں امید رکھتا ہوں کہ صدر ٹرمپ اس سلسلے کو آگے بڑھائیں گے"۔
اس سے پہلے کہ ہم صدر ٹرمپ کے ردعمل کی طرف جائیں یہ ضروری ہے کہ اس با ت کو نوٹ کر لیا جائے کہ وزیر اعظم نے مختصر ترین الفاظ میں مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس کو نہ صرف غیر ضروری طوالت سے بچایا بلکہ صدر ٹرمپ کی توجہ کے حصول کیلئے اس میں کوئی جذباتیت اور ڈرامائی طرز عمل بھی اختیار نہیں کیا۔ مسکت حقائق کا بیان اور اس میں امریکی کردار کی ضرورت کا احساس دلانا ان کا مدعا تھا۔ اس کے بعد صدر ٹرمپ نے جو کچھ کہا اسکے بعد دریاؤں کے بند ٹوٹ گئے۔ آسمان سے بجلیاں کڑکنے لگیں اور ہر سو طوفان کا سا سماں بندھ گیا۔ صدرٹرمپ (وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے) :" تو یوں ہے کہ دو ہفتے پہلے میں وزیر اعظم مودی کیساتھ تھا، اور انھوں نے مجھ سے اس موضوع پر بات کی ہے۔ در حقیقت انہوں نے مجھ سے کہا کہ " کیا آپ ایک ثالث یا حَکم کا کردار ادا کرینگے؟ میں نے کہا "کدھر" وہ کہنے لگے "کشمیر"۔ کیونکہ یہ مسئلہ برسوں سے جاری ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ مسئلہ اتنا پرانا ہے۔اور مجھے لگتا ہے کہ وہ (بھارت) چاہتے ہیں کہ یہ حل ہوجائے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ بھی یہ چاہتے ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو۔ اور اگر میں مدد کر سکتا ہوں، تو مجھے اس میں ایک ثالث کا کردار ادا کرنے میں بڑی خوشی ہوگی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، میرا مطلب ہے کہ دو عظیم الشان ممالک، جن کے لوگ نہایت قابل اور اسمارٹ ہیں اور جن کی قیادت دانشمند اور بالغ نظر ہے، ان کے درمیان یہ مسئلہ کیونکر حل نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں اس میں ثالثی کروں تو میں تیار ہوں۔ (اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ "جناب صدر، میں آپ کو بتاسکتا ہوں کہ اگر آپ یہ کردار ادا کرینگے تو آپ اس خطے کے اربوں لوگوں کی دعائیں لینگے) اس کو حل ہونا چاہیے۔ لیکن انہوں (مودی) نے خود مجھ سے اسکا کہا ہے، لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ (خواہش کا اظہار ) ہے۔ تو ہم ان سے بات کرسکتے ہیں، یا میں ان سے بات کرسکتا ہوں اور ہم دیکھیں گے کہ اگر میں اس میں کچھ کرسکتا ہوں، کیونکہ میں نے کشمیر کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوا ہے۔ کیا پیارا نام ہے۔ اس کو تو دنیا کا خوبصورت ترین حصہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس وقت تو یہاں ہرطرف بمباری ہورہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ جہاں بھی جائیں وہاں بم ہیں۔ یہ ایک وحشتناک صورتحال ہے۔ اور یہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ اگر میں اس سلسلے میں کچھ مدد کرسکتا ہوں تو مجھے بتائیں۔"
"ہم نے ایسی کوئی درخواست نہیں کی" وزات خارجہ کے ترجمان نے اپنے ٹویٹ میں فوری طور پر رات ہی میں بیان دیا۔ لیکن صبح ہوتے ہی سارے بھارت کو اس زلزلے کی آمد کا احساس ہوگیا تھا۔ پارلیمنٹ میں ایک ہنگامہ برپا تھا، جہاں حزب اختلاف نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے وزیر خارجہ کی تردید کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بذات خود اس کا جواب دیں۔ اور عوام کو بتائیں کہ انہوں نے G-20 کے اجلاس میں صدر ٹرمپ سے کیا باتیں کی ہیں۔
حزب اختلاف دعوی کررہی ہے کہ حکومت نے خارجہ پالیسی میں تبدیل کردی ہے اور شملہ معاہدے کے برعکس اس مسئلے کو بین الاقوامی ثالثی کے سپرد کردیا ہے۔ وہ وزیر اعظم جو ٹوئٹ کا ماہر ہے، مسلسل اس بات سے گریز کررہا ہے کہ اس کا خود جواب دے۔ درحقیقت اسکی خاموشی اسکی چغلی کھا رہی ہے کیونکہ اسے معلوم ہے اس کے انکار کے بڑے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ کم از کم اس کا صدر ٹرمپ کے ساتھ جو تھوڑا بہت اعتماد کا رشتہ باقی ہے وہ بھی ختم ہوجائیگا۔ یہ پیش رفت مسئلہ کشمیر کاحل نہیں ہے۔ لیکن اس واقعے نے سرد خانے میں پڑے اس مسئلے کو دنیا کی شہ سرخیاں بنادیا ہے۔ چین نے امریکی پیشکش کا خیرمقدم کیا ہے۔ دیگر ممالک کو بھی اس پیش رفت سے حوصلہ ہوگا اور بھارتی ہٹ دھرمی کا نوٹس لینگے۔ مودی کی درخواست نے یہ بات عیاں کردی ہے کہ بھارتی حکومت اس معاملے میں کشمیریوں کے عزم و حوصلہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتی جارہی ہے۔ اس کا بیانیہ دنیا میں کم قیمت پر بھی فروخت نہیں ہورہا ہے۔ اسکی یہ کوشش کے اس مسئلے کو مقامی بنا کر اس کو دنیا کے سامنے دہشت گردی کا عنوان دیناکام ہورہی ہے۔