ٹرمپ، خان ملاقات پر نہ ختم ہونے والے تبصرے جاری ہیں۔صدر ٹرمپ امریکہ کی مسلم اور افریقی کمیونٹی میں غیر مقبول ہیں۔ لیکن ٹرمپ پرو امریکی ہیں۔امریکی صدور اپنے گھر کی باتیں گھر کے اندر رکھتے ہیں۔ ہم نے قید خانے سے اے سی اور ٹی وی نکلوا لیا ہے تو اربوں کھربوں کی کرپشن بھی نکلوا لیں گے ؟گھر کی بات تھی اچھا ہوتا اگر گھر میں کہی جا تی۔ امریکہ کے جلسے میں پوری دنیا کو بتا نے کی ضرورت نہ تھی کہ واپس جا کر جیل سے اے سی اور ٹی وی نکلوا دوں گا۔باہر والے ہمارے سگے نہیں۔ جس کے منہ پر ہوتے ہیں اسی کی بانسری بجاتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بولنے کا بے حد شوق ہے اور بغیر سوچے بولتے چلے جاتے ہیں۔ اگلاالیکشن جیتنے کا خبط سوار ہے۔ ایک گھنٹے کی پریس کانفرنس میں نصف وقت تو ٹرمپ بولتے رہے۔ کشمیر کا کارڈ بھی خوب کھیل گئے۔بعد میں مودی سے معاملہ سنبھال لیں گے۔ بات مودی ٹرمپ عمران کی نہیں۔ یہاں ملکی پالیسیاں بولتی ہیں۔ٹرمپ کا اگلا الیکشن افغان امن سے منسوب ہے اور انہیں پاکستان کے دل میں جگہ بنانا ہے۔ سابق صدر اوباما کی گفتگو اور باڈی لینگویج بتاتی تھی کہ ایک وکیل اعلی تعلیم یافتہ شخصیت مخاطب ہے اور ٹرمپ کا انداز گفتگو اور باڈی لینگویج بھی ان کی گردن میں جھولنے والی ٹائی کی طرح طویل ہے۔ بھارتی صحافیوں نے دہشت گردی افغان جنگ اور اپنے جاسوس شکیل آفریدی سے متعلق طنزیہ سوال اٹھائے جبکہ ہماری طرف سے کشمیر اور بلوچستان کی صورتحال میں مماثلت ظاہر کی جارہی تھی جبکہ کشمیر ایک انٹرنیشنل سطحْ پر اٹھایا گیا مسئلہ اور سوال ہے اور بلوچستان کو انٹرنیشنل مسئلہ اور سوال بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وائٹ ہائوس کے باہر بھی کچھ اینٹی پاکستان جماعتیں بلوچستان کی آڑ میں پاکستان اور اداروں کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے سابق وزیراعظم کو بھی فون پر تعریفوں کے پل باندھے تھے۔ نواز شریف کے منہ پر ان کی تعریفیں اور عمران خان کے منہ پر ان کی خوشامد اور حالیہ ملاقات میں نواز شریف کی برائی کہ پاکستان کی ماضی کی حکومت نے تعاون نہیں کیا وغیرہ۔موصوف کاایران کے خلاف رویہ انتہائی تلخ تھا جیسے ایران نے امریکہ پر خود کش حملہ کر دیا ہو۔ ایران کے ایٹمی قوت بننے کا خوف ٹرمپ کی باتوں سے نمایاں تھا۔ وزیراعظم پاکستان سے ایران کی یوں براء کی جا رہی تھی جیسے پاکستان کو ایران کے خلاف اکسانے کی کوشش کی جا رہی ہو۔جب مسلمان مسلمان کا بھائی نہ رہا تو یہودی نصاری کی چالاکیوں سے کیا شکوہ۔ ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے مابین اہم ملاقات ہوئی جس میں دونوں رہنماوں کے مابین مثبت اور کامیاب مذاکرات ہوئے۔ اب پاک امریکا تعلقات میں پیشرفت کا وقت آ گیا ہے، افغان امن عمل میں پاکستان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔امریکی محکمہ خارجہ کی پریس بریفنگ میں ترجمان مورگن اورٹیگس کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان اور صدر ٹرمپ کے درمیان ملاقات انتہائی اہم تھی، دونوں رہنماوں کے درمیان خطے سے متعلق اہم امور زیر غور آئے جبکہ مجموعی طور پر مذاکرات مثبت اور کامیاب رہے۔۔۔انسان بھلے جس بھی مقام یا عہدے پر پہنچ جائے ذاتی دکھ تکلیف نہیں بھول سکتا۔یاد رہے کہ 2017 میں پریڈگراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کے دوران اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان نے کہا تھا کہ نواز شریف نے 21 سال کی جمائما پر ظلم کی انتہا کر دی تھی۔معصوم بننے والے شریف خاندان نے جمائما کو بہت زیادہ تکلیف پہنچائی۔انھوں نے کہاکہ جمائما پر یہودی سازش کا الزام لگایا گیا تھا اوراس پر ٹائلوں کی اسمگلنگ کا کیس بنا دیا گیا۔عمران خان نے انکشاف کیا تھا کہ برسوں گزرنے کے بعد بھی جمائما وہ تکلیف نہیں بھولی ہے۔۔۔ماضی شاید خود کو دہرا رہا ہے۔لیکن پاکستان میں اچھا وقت ضرور آئے گا۔ اس کی مٹی میں شہیدوں کا لہو شامل ہے اس کو ستّے خیراں ہے۔یہ ملک فاقہ تنگ دستی مشکلات برداشت کر سکتا ہے لیکن خود پر کسی متکبر خود پسندعقل کل کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتا۔ جنرل ضیا الحق کے نعرے ریاست مدینہ اور جنرل پرویز مشرف کے نعرے احتساب نے اس ملک کے جذبات سے بہت کھلواڑ کیا ہے۔ ادھر امریکہ بہادر نے نام نہاد دوستی کے پھر سے سبز باغ دکھا دیئے ہیں۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ ٹرمپ کا مصافحہ اور مسکراہٹیں صرف حکومت کو خوش کرسکتی ہیں ، یہ پاکستان کے مسائل کا حل نہیں ہے۔ ہرحکومت امریکی دوستی پرشادیانے بجاتی رہی، امریکہ نے ہمارے حکمرانوں کوہمیشہ استعمال کیا۔۔۔
۔۔۔ٹرمپ کے سمارٹ کارڈ ز۔۔۔
Jul 28, 2019