اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام نے عیدالاضحیٰ اور محرم الحرام کے دوران احتیاط کرلی تو اس کے بعد زندگی آسان ہوجائے گی اور ہمیں سیاحت اور ریسٹورنٹس کو کھولنے کی اجازت دینے کا موقع ملے گا اور اچھے نتائج کی بنیاد پر ایس او پیز کے ساتھ تعلیمی ادارے کھولے جائیں گے۔ عیدالاضحیٰ اور محرم الحرام میں احتیاط نہ کی تو کرونا کیسز میں اضافہ ہو جائے گا۔ ہسپتالوں پر دباؤ میں کمی آگئی ہے اور 3 ماہ کے دوران گزشتہ روز کرونا سے سب سے کم اموات ہوئیں، آگے بھی چیلنجز ہیں احتیاط کرنی ہے۔ ہمارے حالات چین سے بھی مختلف ہیں تو پاکستان میں حکمت عملی یورپ اور چین سے بالکل مختلف تھی، ہم پہلی حکومت تھے جس نے سمارٹ لاک ڈاؤن کی بات کی۔ تاہم کچی آبادیوں میں لاک ڈائون لگانا بہت مشکل ہے۔ پیر کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ان چند ملکوں میں شامل ہے جہاں کرونا وبا پر قابو پایا جا رہاہے، اللہ کا کرم ہے پاکستان میں کرونا کیسز کی تعداد میں کمی ہوئی ہے اور دنیا آج مان رہی ہے کہ پوری طرح لاک ڈاؤن ناممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سمارٹ لاک ڈاؤن لگایا، زراعت پر پابندی نہیں لگائی تاکہ فوڈ سپلائی نہ رکے اور تعمیرات کا شعبہ کھولا تاکہ مزدوروں کو کام ملے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تعمیرات کا شعبہ کھولنے پر تنقید ہوئی کہ اس سے اموات بڑھیں گی لیکن ہم نے خطرہ لے کر فیصلہ کیا کہ لوگوں کو بھوک سے بچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کو دنیا ابھی سمجھ رہی ہے، ویکسین بھی نہیں آئی، عیدالاضحی پر احتیاط نہ کی تو یہاں کیس پھر اوپر جاسکتے ہیں اور پھر لاک ڈاؤن لگانا پڑسکتا ہے جس سے معیشت پر اثر پڑے گا۔ محرم اور عید الاضحیٰ کے موقع پر تمام شہری ذاتی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے احتیاط کریں، فیس ماسک کے ذریعے کرونا وائرس کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے، عید اور محرم پر کامیابی مل گئی تو آگے کاروبار کھولنے کا موقع ملے گا۔ وزیراعظم نے شہریوں کو آن لائن قربانی کرنے کی تجویز دی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جو بھی اقدامات ہم نے کئے ہیں ان کی وجہ سے آج پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے کرونا وائرس پر قابو پالیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اللہ کا کرم ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔ ہمارے ہسپتالوں پر جو دباؤ تھا اس میں کمی آگئی ہے اور انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یوز) میں مریضوں کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے۔ لاک ڈاؤن کرونا وائرس بحران کا عارضی حل ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے لیے آگے بھی چیلنجز ہیں اور ہمیں مزید احتیاط کرنی ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس پہلے چین سے شروع ہوا پھر یورپ چلا گیا تو لوگ یہاں بیٹھ کر یورپ کو دیکھ رہے تھے اور یورپ میں جس طرح کے اقدامات کیے جارہے تھے تو یہاں بھی ہم پر ویسا ہی دباؤ پڑا کہ ویسا کریں جو یورپ کررہا ہے۔ ہماری حکومت کو یہ چیز سمجھ آئی کہ ہمارے اور یورپ کے حالات میں بہت فرق ہے۔ جبکہ چین اور ووہان کے مقابلے میں ہمارے حالات میں فرق ہے۔ عمران خان نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ جب میں نے اپنی ٹیم سے مشاورت کی اور دنیا کو وہ چیزیں بعد میں سمجھ آئیں، جیسا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن، ہماری حکومت نے سب سے پہلے سمارٹ لاک ڈاؤن سے متعلق بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوگیا کہ اگر آپ سخت لاک ڈاؤن اور کرفیو لگاتے ہیں تو یہ یاد رکھیں کہ اس ملک میں کرفیو لگانا بہت مشکل ہے جہاں کچی آبادیوں میں، محلوں میں 7 سے 8 افراد ایک کمرے میں رہ رہے ہوں اور آپ وہاں لاک ڈاؤن لگائیں گے تو ہوگا ہی نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان علاقوں میں ایسا طبقہ رہائش پذیر ہوتا ہے کہ وہ مزدوری نہیں کریں گے تو اپنے بچوں کو کھانا کیسے کھلائیں گے، ہمیں معلوم تھا کہ انہیں گھر میں بند کردیں گے تو وہ بھوک کی وجہ سے مرجائیں گے اور ایسا ہوا بھی ہے کہ بھارت میں لاک ڈاؤن لگایا گیا اور آج بھی وہاں اس کے اثرات موجود ہیں کہ غربت بڑھ گئی، بھوک بڑھ گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لاک ڈاؤن لگانا مشکل ہوتا ہے، امیر اور خوشحال علاقوں میں لاک ڈاؤن ہوسکتا ہے، اگر لاک ڈاؤن ہوجائے تو میں اپنے گھر میں بہت آرام سے رہ سکتا ہوں۔ ہمارے پاس پیسہ بھی ہے گزارا کرسکتا ہوں۔ لیکن ان علاقوں میں جہاں پیسہ بھی نہیں ہے، دیہاڑی دار ہیں، جہاں زیادہ افراد محدود جگہ پر رہ رہے ہیں وہاں یہ زیادہ مشکل ہے۔ دنیا کرونا وائرس کی وباء کے تناظرمیں پاکستان کی سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی کوبڑے پیمانے پر سراہ رہی ہے جس کابنیادی مقصد زندگی اور روزگار کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سماجی رابطے پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہاگیاہے کہ ملک میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد جون کے وسط میں یومیہ تقریباً چھ ہزارآٹھ سوتھی جو تیزی سے کم ہوکرگزشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران بارہ سو نو رہ گئی ہے۔ وزیرِاعظم عمران خان نے ملک میں آٹا اور چینی کی وافر اور مناسب قیمت پر دستیابی کو یقینی بنانے اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کو مزید تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گندم اور آٹے کی قیمتوں کو ملک بھر میں یکساں سطح پر لانے کے لئے باہمی مشاورت سے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے، شوگر ملوں کی جانب سے کرشنگ کے عمل میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے، ضرورت پڑنے پر چینی کی درآمد کے حوالے سے بھی منصوبہ بندی اور انتظامات مکمل کیے جائیں۔ وہ پیر کو یہاں ملک میں گندم اور چینی کی صورتحال کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کے مطابق اجلاس میں وفاقی وزراء محمد حماد اظہر، سینیٹر سید شبلی فراز، مشیر ان ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، عبدالرزاق داؤد، معاون خصوصی لیفٹنٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ، متعلقہ وزارتوں کے وفاقی سیکرٹریز نے شرکت کی جبکہ چیف سیکرٹری صاحبان ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں ملک میں گندم اور چینی کی دستیابی کی صورتحال اور قیمتوں کے حوالے سے تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ گندم کی دستیابی کی صورتحال کے حوالے سے اجلاس کو بتایا گیا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر پندرہ ہزار میٹرک ٹن سے زائد گندم کی سپلائی فلور ملز کو کی جا رہی ہے۔ چیف سیکرٹری خیبرپختونخواہ نے بتایا کہ صوبائی حکومت نے پاسکو سے اسی ہزار میٹرک ٹن گندم حاصل کر لی ہے جبکہ مزید ایک لاکھ میٹرک ٹن کے لئے معاہدہ ہو چکا ہے۔ وزیرِ اعظم کو بتایا گیا کہ سرکاری طور پر گندم کی ریلیز سے جہاں دستیابی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے وہاں قیمتوں پر بھی مثبت اثر پڑا ہے۔ گندم کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث عنا صر کے خلاف اب تک کی جانے والی کاروائی کی رپورٹ وزیرِ اعظم کو پیش کی گئی۔